اسلامی تحریک مزاحمت (حماس) کے سیاسی شعبے کے سربراہ خالد مشعل نے کہا ہے کہ فلسطینی جماعتوں کے درمیان مفاہمت امریکا، روس، یورپی یونین اور اقوام متحدہ پرمشتمل چار رکنی کمیٹی کی شرائط کے تحت نہیں بلکہ ایسی مفاہمت قابل قبول ہوگی جس میں فلسطینی قوم کےمزاحمت کے پروگرام کی کھل کرحمایت کی گئی ہو۔ جمعہ کے روزغزہ میں حماس کے سابق سربراہ ڈاکٹرعبدالعزیزرینتیسی شہید کی چھٹی برسی کے سلسلے میں منعقدہ تقریب سے ٹیلیفونک خطاب کرتے ہوئے خالد مشعل نےکہا کہ مغربی کنارے میں فلسطینی عوام کے بنیادی حقوق کے دفاع کے لیے مزاحمت کے پروگرام کو”الرٹ” کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ اب وقت آ گیا ہے کہ عرب ممالک دشمن اسرائیل کے ساتھ امن سمجھوتوں کا راستہ چھوڑکر مسلح مزاحمت کی حمایت کی راہ اختیار کریں۔ انہوں نے کہا کہ “امن قوت سے حاصل ہوتا، کمزوری دکھا کرامن قائم نہیں کیا جا سکتا”۔ خالد مشعل نےفلسطینی عوام کی جانب سے جاری گذشتہ چند دھائیوں کے دوران دی جانے والی قربانیوں اور صہیونی مظالم پر صبر و استقامت کا مظاہرہ کرنے پر انہیں خراج تحسین پیش کیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ عرب ممالک اگرامن قائم کرنا چاہتے ہیں تو انہیں لا محالہ اسرائیل سے مفاہمت کے بجائےمزاحمت کی راہ اپنانا ہو گی۔ ڈاکٹرعبدالعزیزرینتیسی شہید کی حیات پرتبصرہ کرتے ہوئے خالد مشعل نے کہا کہ ڈاکٹررینتیسی شہید جیسی شخصیات صدیوں بعد جنم لیتی ہیں، شہید کی زندگی فلسطینی عوام کے لیے بہترین نمونہ ہے۔ مزاحمت اور تحریک آزادی کے سلسلے میں ان کی قربانیوں اور خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ اسرائیلی جیلوں میں پابند سلاسل بھوک ہڑتال کرنےوالے فلسطینی قیدیوں کے بارے میں انہوں نے کہا کہ اسیران تحریک آزادی فلسطین کے ہیرو ہیں۔ ان کی صہیونی جیلوں سے رہائی کے لیے تمام تر ممکنہ وسائل کو استعمال کیا جائے گا۔ بیت المقدس اور مغربی کنارے میں یہودی آباد کاری کی مذمت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اسرائیل ایک سازش کے تحت بیت المقدس کو یہودی تہذیب کا گڑھ بنانا چاہتا ہے کہ دنیا کو یہ دکھا سکے کہ بیت المقدس تہذیبی اور تاریخی اعتبار سے اسرائیل کا حصہ ہے۔