عالمی توانائی ایجنسی کے سابق سربراہ اور مصر میں صدارتی انتخابات برائے 2011ء میں اہم ترین صدارتی امیدوار ڈاکٹر محمد البرادعی نے کہا ہے کہ مسئلہ فلسطین تاریخ کے بدترین دور سے گذر رہا ہے، خاص طورسےاسرائیل کی جانب سے وحشیانہ انداز میں اسلامی مقدسات پر حملے، یہودی آباد کاری میں توسیع، نئے یہودی معابد کی تعمیر اور خود فلسطینیوں کے درمیان پھوٹ اور انتشار مسئلہ فلسطین کے بحران کا حقیقی مظہر ہیں۔
پیرکے روزمرکزاطلاعات فلسطین کو انٹرویو میں محمد البرادعی نے کہا کہ فلسطین میں اسرائیل کی ظالمانہ معاشی ناکہ بندی اور ریاستی دہشت گردی کے خلاف مزاحمت کی صف بندی کے سوا چارہ نہیں، اپنے جائز حقوق کے حصول کے لیے مزاحمت ہر قوم کا حق ہے اور فلسطینیوں کوبھی اس بنیادی حق سے محروم نہیں کیا جا سکتا۔ فلسطینی عوام غیرملکی تسلط میں زندگی بسر کر رہے ہیں، اس اعتبار سے ان کا آزادی کے لیے مزاحمت کا حق اوربھی مسلمہ ہو جاتا ہے۔
ایک سوال کے جواب میں محمد البرادعی نے کہا کہ “اسرائیل امن اور مذاکرات کی زبان نہیں سمجھتا، اگرعرب ممالک میں سے بعض اسرائیل سے مذاکرات کی پیش بندی کرتے ہیں تو وہیں مذاکرات کے ساتھ ساتھ حقوق کے دفاع کے لیے طاقت اور قوت کے تمام اسباب اور ذرائع کو بھی بروئے کار لانا ضروری ہے تاکہ مذاکرات کے مثبت نتائج حاصل کرنے میں مدد لی جا سکے”۔
انہوں نے مزید کہا کہ اسرائیل عرب ممالک کی جانب سے بیت المقدس اور مسئلہ فلسطین سے متعلق لاپرواہی اختیار کرنے اور فلسطینیوں کی باہمی چپقلش سے فائدہ اٹھا کرمذاکرات میں اپنی مرضی کے نتائج کے حصول کے لیے کوشاں ہے۔
عربوں اور فلسطینیوں کی کمزوریوں کے باعث اسرائیل اپنی مرضی کا امن عمل آگے بڑھانا چاہتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم گذشتہ بیس برس سے دیکھ رہے کہ اسرائیل امن بات چیت کا “ڈرامہ” کر رہا ہے، سوال یہ ہے کی کیا ہم ان بیس برسوں میں ایک قدم بھی مسئلہ فلسطین کے حل کی جانب بڑھ سکے ہیں؟ یہ امن مذاکرات نہیں بلکہ “امن عمل بیوقوفانہ لطیفہ بن چکا ہے”۔ عرب ممالک کی حمایت سے فلسطینی اتھارٹی کی جانب سے اسرائیل سے بالواسطہ مذکرات کو”فضول” قرار دیتے ہوئے محمد البرادعی نے کہا کہ یہ مذاکرات امریکی حمایت کے تحت ہو رہے ہیں۔
غزہ کی سرحد پر مصر کی جانب سے تعمیر کی جانے والی زیرزمین آہنی دیوار کے بارے میں سوال پر البرادعی کا کہنا تھا کہ “آہنی دیوار کھڑی کرنے کے اقدام نے مصر کی شہرت اور ساکھ کو بری طرح نقصان پہنچایا ہے۔ کیونکہ یہ دیوار دنیا کی سب سے بڑی کھلی جیل غزہ کی پٹی میں اسرائیل کی مسلط کردہ معاشی ناکہ بندی کا حصہ ثابت ہو گی”۔
انہوں نے کہا کہ مصر جن وجووہات کی بنا پر دیوارکھڑی کر رہا ہے وہ دیوار سے ختم نہیں ہو سکتیں، بلکہ سرنگوں کو بند کرنے غزہ اور مصر کے درمیان سرحد کھول کروہ وجووہات دور کی جا سکتی ہیں۔