انڈونیشیا میں اسرائیل کی جانب سےمقبوضہ بیت المقدس میں یہودی آباد کاری، مسجد اقصیٰ پر حملوں اور مقدسات اسلامی کو یہودی وراثت کا حصہ قراردیے جانے کے خلاف ایک لاکھ افراد نے مظاہرہ کیا ہے۔
احتجاجی مظاہرے انڈونیشیا میں سیاسی جماعت انصاف و رفاہ اسلامی کی اپیل پر کیا گیا تھا، جس میں جکارتہ میں ہفتے کے روز ہونے والے اس احتجاجی مظاہرے میں جکارتہ سے تعلق رکھنے والے شہریوں، خواتین، انسانی حقوق کے مندوبین اورطلبہ کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔
مظاہرین نے ہاتھوں میں کئی کئی میٹر طویل بینرز اٹھا رکھے تھے، جن پر”فلسطینیوں تم تنہا نہیں” اقصیٰ ہمارے دلوں میں آباد ہے” کے نعرے درج تھے۔
مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئے انڈنیشین رکن پارلیمنٹ یویو الیسرا نے کہا کہ فلسطینی عوام کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ “آج انڈونیشی عوام کا یہ جم غفیر تمہارے تحفظ کے لیے جمع ہے، ہم ہر سطح پر اور ہر مشکل میں فلسطینی عوام کی حمایت جاری رکھیں گے۔
انہوں نے کہا کہ فلسطینی عوام کے جذبے اور ہمت کو سلام پیش کرتے ہیں، اسرائیلی قبضے، معاشی ناکہ بندی، فوج گردی اور دہشت گردی کے باوجود وہ لوگ اتنے پرعزم ہیں کہ تمام تر مشکلات کے باوجود قرآن کریم کو حفظ کر رہے ہیں اور ہر سال ہزاروں کی تعداد میں قرآن کریم کے حفاظ تیار ہو رہے ہیں۔ ایسے میں فلسطینیوں کا تحفظ اور ان ہرممکن مدد ہم سب کی ذمہ داری ہے۔
مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئے سابق صدر کے سیاسی مشیر ڈاکٹر ھدایت نور نے کہا کہ فلسطینی عوام جس مشکل سے گذر رہے ہیں، اس پر انہیں اس صورت حال سے نکالنا پوری امت کی ذمہ داری ہے۔ انہوں نے انڈنیشی حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ ایک بڑی اور موثر اسلامی ملک کی حیثیت سے بیت المقدس میں یہودی آباد کاری روکنے اور اسرائیلی ریاستی دہشت گردی کے خلاف ٹھوس اقدامات کرے۔
ڈاکٹر نورنے عالم اسلام اورعرب ممالک کی توجہ فلسطین کی موجودہ صورت حال کی جانب مبذول کراتے ہوئے کہا کہ فلسطین کی داخلی صورت حال کی بہتری کے لیے تمام جماعتوں کے درمیان اتحاد پیدا کرنا بھی عالم اسلام کی ذمہ داری ہے، عرب ممالک اور دیگر اسلامی دنیا فلسطینیوں کی صفوں میں اتحاد کے لیے کوششیں تیز کریں
انہوں نے کہا کہ فلسطین میں اسرائیلی کی ریاستی دہشت گردی کےخاتمے، فلسطینی مقدسات کے تحفظ اور بیت المقدس میں جاری صہیونی سرگرمیوں پرعالم اسلام کا کردار منفی ہے۔ مسلم حکمران مسئلہ فلسطین کے حل کے سلسلے میں مخلصانہ کوششیں کریں۔ انہوں نے فلسطین کے مسئلے کے حل کے لیے انسانی حقوق کی تنظیموں اور اسلامی کانفرنس تنظیم کو فعال کرنے کی ضرورت ہے۔