اسلامی تحریک مزاحمت (حماس) کے راہنما سامی ابو زھری نے کہا ہے کہ فلسطینی اتھارٹی کی جانب سے اسرائیل سے مذاکرات بحال کرنے کا فیصلہ ایک قومی جرم ہے، محمود عباس کی جانب سے اسرائیل سے مذاکرات کے فیصلے سے واضح ہو گیا ہے کہ وہ مغربی کنارے اور مقبوضہ بیت المقدس میں یہودی آباد کاری کو آینیی حیثیت دینا چاہتے ہیں۔ جمعہ کے روز اپنے ایک بیان میں انہوں نے کہا کہ دنیا جانتی ہے کہ اسرائیل کے ساتھ فلسطینی اتھارٹی کے حالیہ مذاکرات کا فائدہ صرف اسرائیل کو ہو گا جبکہ فلسطینی عوام کے ہاتھ کچھ بھی آنے والا نہیں۔ ایسے میں فلسطین کی ایسی قیادت جو فلسطینیوں کے بجائے صرف اسرائیل کا مفاد سوچتی ہے فلسطینیوں کی نمائندہ نہیں ہوسکتی۔ ابو زھری نے کہا کہ ایک ایسے وقت میں جبکہ اسرائیل فلسطین میں یہودی آباد کاری کے رویے میں اضافہ کر رہا ہے فلسطینی اتھارٹی کا فطری فیصلہ ہر قسم کے مذاکرات کا بائیکاٹ ہونا چاہیے۔ اسرائیل کی طرف سے مغربی کنارے اور بیت المقدس میں سیکڑوں مکانات کی تعمیر کے اعلان کے باوجود محمود عباس اور ان کی جماعت کا صہیونی حکومت سے مذاکرات جاری رکھنے پر اصرار فتح کے کردار پر ایک سوالیہ نشان ہے۔ حماس نے راہنما نے کہا کہ محمود عباس کی جانب سے فلسطین میں یہودی آباد کاری کی محض رسمی اور نمائشی مذمت کی جاتی ہے جبکہ عملاً وہ اسرائیل کو مضبوط کر رہے ہیں، مذاکرات اسرائیل کے غیر قانونی اقدامات کو جواز فراہم کرنے کا اہم ترین ذریعہ ہے۔