اسرائیلی حکومت نے الخلیل کے حرم ابراہیمی اور بیت لحم کی بلال بن رباح مسجد کو یہودی آثار قدیمہ کی لسٹ میں شامل کرنے کا اعلان کیا ہے۔ الخلیل سے منتخب فلسطینی مجلس قانون ساز کی خاتون رکن سمیرہ حلائقہ نے اسرائیلی حکومت کے فیصلے کو ڈیڑھ ارب مسلمانوں کے دینی جذبات سے کھیلنا قرار دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسرائیلی وزیر اعظم نے حرم ابراہیمی اور بلال بن رباح مسجد کو یہودی آثار کی لسٹ میں شامل کر کے مسلمانوں کے جذبات مجروح کیے ہیں۔ یہ فیصلہ الخلیل شہر کے متعلق یہودی نظریہ کے پس منظر میں کیا گیا۔ یہودی اس شہر کو اپنی وراثت تصور کرتے ہیں۔ سمیرہ حلائقہ نے کہا کہ اس طرح کے اقدامات کر کے اسرائیلی حکومت مسجدوں پر قبضے کو جائز نہیں کرسکتی۔ مسجدیں مسلمانوں کی ملکیت ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ اسرائیلی فیصلے سے انتہا پسند یہودی جماعتوں کو مسجد کو یہودی معبد میں تبدیل کرنے کا موقع ملے گا جس کے بعد وہ مسلمانوں کو مسجد ابراہیمی میں داخل ہونے سے روک دیں گے۔ اسرائیلی فیصلہ آزادی مذہب کی خلاف ورزی ہے۔ واضح رہے کہ مسجد ابراہیمی مسلمانوں کے ہاں مسجد حرام، مسجد نبوی اور مسجد اقصیٰ کے بعد چوتھی عظیم مسجد کا درجہ رکھتی ہے۔