اسلامی تحریک مزاحمت (حماس) کے سیاسی شعبے کے نائب سربرا ہ ڈاکٹر موسیٰ ابو مرذوق نے کہا ہے کہ اسرائیلی سپاہی گیلاد شالیت کی غزہ وادی میں موجودگی اسرائیل کے سا تھ دوسرے جنگ کو ٹال نہیں سکتی جیسا کہ پچھلے سال دیکھنے میں آیا جب اسرائیل نے غزہ پٹی پر دھاوا بول دیا۔ ایک خصوصی انٹرویو میں ڈاکٹر موسیٰ نے اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یا ہو پر الزام عائد کیا کہ اس نے قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے پر عملدرآمد کا یقین دلانے کے باوجود اس پر عمل نہیں کیا اور جرمن ثالث اس ساری صورتحال سے اچھی طرح واقف ہے۔ایک سوال کے جواب میں حماس رہنما نے کہا کہ حماس مصر ی حکومت کے تیار شدہ ڈرافٹ پر اس صورت میں دستخط کرے گی جب مصر حماس کے ڈرافٹ پر تحفظات کو دور کرے گی۔ ڈاکٹر موسیٰ نے انکشاف کیا کہ کئی ایسے نکات جن پر دونوں حماس اور فتح کے درمیان اتفاق رائے تھا کو ڈرافٹ میں شامل نہیں کیا گیا ہے اور کئی ایسے نقاط اس میں شامل کئے گئے ہیں جن کے بارے میں دونوں تنظیموںکے درمیان کوئی گفتگو نہیں ہوئی ہے۔ ڈاکٹر ابو مرذوق نے واضح کیا حماس کے مصر کے حوالے سے باضابطہ تنظیمی بیان اور حماس کے بعض رہنماوں کی طرف سے چند واقعات کے رونما ہونے کی وجہ سے مخالفانہ بیانات میں فرق محسوس کرنے کی ضرورت ہے۔انہوں نے کہا کہ اگر مصری پولیس کسی حماس کارکن کو گرفتار کر لیتی ہے اور پھر شدید تعذیب کا نشانہ بناکر اسے قتل کردیتی ہے تو ایسے رویے پر ہم ان کا شکریہ تو ادا نہیں کرسکتے۔ فلسطینی مجلس قانون ساز کے ممبر اور حماس کے سیاسی شعبے کے رکن ڈاکٹر خلیل الحیہ نے ابو مرذوق کے قومی مفاہمت کے بارے میں خیالات کی تائید کرتے ہوئے جرمن نیوز ایجنسی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ ہم ہر وقت فلسطینیوں کے درمیان ہم آہنگی کیلئے سرگرم عمل رہے ہیں اور رہیں گے۔ ڈاکٹر خلیل نے کہا کہ حماس کو بحیثت حکمران پارٹی اپنے اصلاحات نافذ کرنے کا موقع نہیں دیا گیا کیونکہ حماس دشمنوں نے ہمیشہ اس تحریک کو دیوار سے لگانے کی کوششیں کیں تا کہ وہ یہ دعویٰ کر سکیں کہ حماس اپنے الیکشن منشور پر عمل کرنے میں ناکام رہی ہے۔ ڈاکٹر حیہ نے دعویٰ کیاکہ عالمی برادری اورعرب دنیا کی طرف سے معاشی قدغن کے باوجودحماس نے لوگوں کے احساسات کی بھرپور عکاسی وترجمانی کی اور غزہ وادی میں امن و امان اور قانون کی عملداری کو ممکن بنایا ۔اور یہ حماس کی سب سے بڑی کامیابی ہے۔