اسلامی تحریک مزاحمت (حماس) نے متنازعہ صدر محمود عباس کی جانب سے اسرائیل کے ساتھ مذاکرات کی بحالی کے اعلان پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ محمود عباس فلسطینی عوام کے نمائندہ نہیں رہے، وہ امریکا اور اسرائیل کے دباؤ میں آ کر فلسطینی عوام کے بنیادی حقوق کی سودے بازی کر رہے ہیں۔
دمشق سے پیر کے روز حماس کے دفتر سے جاری ایک بیان میں محمود عباس کے بیان پرشدید ردعمل کا اظہار کیا گیا ہے۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ محمود عباس کی طرف سے اسرائیل سے یہودی بستیوں کی تین ماہ کے لیے عارضی بندش کے بدلے میں مذاکرات کی بحالی کا اعلان شکست تسلیم کرنے کا واضح اعلان ہے۔
محمود عباس فتح کے تحریک آزادی فلسطین کے لیے دی گئی قربانیوں کے برعکس سفر جاری رکھے ہوئے ہیں، ان کے اقدامات فتح اور فلسطینی عوام کی جانب سے آزادی کے لیے دی گئی قربانیوں پر پانی پھیرنے کے مترادف ہیں۔
بیان میں مزید کہا گیا کہ محمود عباس امریکا اور اسرائیل کے دباؤ کا شکار ہیں، وہ امریکی خواہش اور صہیونی مفادات کے لیے کوشاں ہیں۔ اسرائیل ایک جانب فلسطین بالخصوص مقبوضہ بیت المقدس میں یہودی آباد کاری پر جنگی بنیادوں پر عمل پیرا ہے، مسجد اقصیٰ کی بنیادیں کھوکھلی کی جا رہی ہیں اور فلسطینیوں کی ملک بدری کا سلسلہ بدستورجاری ہے۔
بیان میں کہا گیا کہ یہ امر کس حد تک حیرت ناک اور قابل مذمت ہے کہ محمود عباس فلسطینی جماعتوں کے درمیان مفاہمت کرانے میں نہ صرف پس و پیش سے کام لے رہے ہیں بلکہ مفاہمت اور مذاکرات کے لیے امریکا اور اسرائیل کی رضامندی پر مشتمل چار رکنی کمیٹی کے شرائط کی پابندی لازمی قرار دے رہے ہیں۔