تحریر:صابر کربلائی
دورحاضر میں یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں رہی ہے کہ عالمی استعمار امریکہ کی ”نیو ورلڈ آرڈر “ کی اصطلاح کا اصل مطلب کیا ہے ،
یعنی پوری دنیا پر امریکی غاصبانہ قبضہ ،کہیں اسرائیل جیسی غاصب صیہونی ریاست کے ذریعے فلسطین پر قبضہ اور پھر گریٹر اسرائیل (نیل تا فرات) کے ناپاک منصوبے،کبھی لبنان پر اسرائیلی حملوں کا دفاع کرنا،تو کہیں عراق اور افغانستان میں امریکی فوجوں کو اتار کر براہ راست قبضہ کرنا،اسی طرح لیبیا میں اپنی فوجوں کو بھیج کر وہاں کے وسائل پر قبضہ ،بالکل اسی طرح پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت سمیت امریکی دہشت گرد افواج کی کھلی کاروائیوں جیسی کئی مثالیں موجود ہیں ،اور کہیں شام کے اندر دہشت گرد قوتوں کو اسلحہ اور ڈالر کی مدد کے ذریعے عدم استحکام کی سازشیں کرنا ۔اسی طرح مصر ،تیونس،یمن ،لیبیا سمیت سوڈان اور صومالیہ میںامریکی جارحیتیں ہمارے سامنے واضح مثالیں ہیں کہ جہاں امریکہ نے کبھی انسانی حقوق کے نام پر اور کبھی مہلک ہتھیاروں اور کبھی جمہوریت کے نام پر شب خون مارا اور پھر بالآخر وہاں کے تمام وسائل پر قابض ہو گیا،الغرض ایشیاء،شمالی افریقہ اور مشرق وسطیٰ کے اندر موجود وسائل پر قبضہ کرنے کے لئے عالمی دہشت گرد امریکہ نے کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے ،اور اس کام کو انجام دینے کے لئے امریکہ کی ناجائز اولاد اسرائیل صف اول میں اس کے ساتھ موجود ہے۔
آپ ملاحضہ کیجئے کہ درج بالا جتنے خطوں اور ممالک کی بات کی گئی ہے وہاں پر ایک ناپاک منصوبہ بندی کے ذریعہ سے امریکی پلان کو کامیاب کیا جا تا رہا ،مثال کے طور پر افغانستان میں جہادی گروہوں کو ختم کرنے کے لئے امریکی بہانہ مضحکہ خیز معلوم ہوتا ہے کیونکہ یہ حقیقت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ یہ گروہ ماضی قریب میں ہی امریکہ کی جنگ لڑ رہے تھے اور آج امریکہ کے دشمن کیسے بن گئے؟ یقینا یہ فقط ایک بہانہ تھا ،اس کے بر عکس دوسری جانب وہاں پر مہلک اور خطر ناک ہتھیار جو استعمال ہوتے رہے وہ سب کے سب غاصب صیہونی ریاست اسرائیل سے لائے گئے تھے ،سوا یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر اسرائیلی اسلحہ کی ترسیل کس طرح ممکن ہوئی؟؟
دوسری بڑی مثال عراق کی موجود ہے جہاں امریکہ نے مہلک ہتھیار کا ڈرامہ رچا کر عراق پر قبضہ کرنے کی ٹھانی تا کہ عراق میں موجود تیل کے ذخائر اور دیگر وسائل پر امریکہ کا قبضہ ہو ،آج کئی برسوں کی امریکی جنگ کے بعد نہ تو وہاں مہلک ہتھیار ملے البتہ اگر امریکہ کے نکل جانے کے بعد اور موجودگی میں کچھ ملا تو وہ ایسے اثرات ملے ہیں کہ جو یہ گواہی دیتے ہیں کہ مختلف اوقات میں دہشت گردانہ کاروائیوں میں معصوم عوام کے خلاف جو ہتھیار استعمال ہوئے وہ اسرائیلی اسلحہ اور بارود تھا ،یہاں بھی حیرت انگیز بات ہے کہ اسرائیلی اسلحہ کس صورت وہاں پہنچا اور معصوم عوام کے خلاف استعمال ہوا؟؟
اسی طرح آپ ملاحضہ کیجئے ! پاکستان جو کہ مسلم امہ کا قلب سمجھا جاتا ہے اور دنیا بھر میں مسلم امہ پر کوئی آنچ آن پڑے تو پاکستان اس کا درد محسوس کئے بغیر نہیں رہ سکتا ،گذشتہ طویل دہائیوں سے اس پاک سر زمین میں دہشت گردی کا بازار گرم ہے اور آئے روز یہاں کبھی فرقہ واریت کو ہوا دی جاتی ہے تو کبھی لسانیت کو تو کبھی قوموں کو آپس میں لڑوانے کی بات کی جاتی ہے ،غرض یہ کہ یہاں پر صرف یہ کوششیں زوروں پر ہیں کہ کسی نہ کسی طرح کوئی ایک سیاسی جماعت کسی دوسری سیاسی جماعت سے لڑے ،اگر نہیں تو کوئی مذہبی جماعت ہی کسی دوسری مذہبی جماعت سے گتھم گتھا ہو جائے اور اگر یہ بھی نہیں تو پھر فرداً فرداً افراد کو نشانہ بنایا جائے اور یہاں کہ عوام کو آپس میں دست و گریباں کیا جائے ۔ان تمام معاملات کے پس پردہ دہشت گردی کے واقعات میںاستعمال ہونے والے اسلحہ کی بات کی جائے تو حیرت انگیز اورافسوس کی بات ہے کہ یہاں بھی اسرائیلی اسلحہ پہنچایا جا رہا ہے تا کہ ملک میں خون کی ہولی کا کھیل جاری رہے۔یہ فقط ہوا میں باتیں نہیں ہیں،ابھی حال ہی میں پاکستان کے وزیر داخلہ جناب رحمان ملک صاحب نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے اپنے ایک بیان میں اس بات کا انکشاف کیا کہ پاکستان میں جاری دہشت گردانہ کاروائیوں میں استعمال ہونے والا اسلحہ اسرائیلی اسلحہ ہے ۔
قارئین! اب سوچئے کہ مملکت خداداد پاکستان میں آخر کیا کھیل کھیلا جا رہا ہے؟آخر کس طرح یہ ممکن ہے کہ پاکستان میں دہشت گردوں کو اسرائیل اسلحہ فراہم کیا جا رہا ہے اور ہمارا خون بہا رہے ہیں؟ آخر کب تک یہ سلسلہ جاری رہے گا؟ یہاں میں ایک اور بات کا تذکرہ کرنا بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ پاکستا ن ایسا اسلامی ملک ہے کہ جس نے روز اول سے غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کے غیر قانونی وجود کو تسلیم نہیں کیا صرف یہی نہیں بلکہ مظلوم اور نہتے فلسطینیوں کی ہمیشہ مدد اور حمایت جاری رکھی ہے ،شاید اسی گناہ کی سزا میں ملک دشمن قوتیں امریکہ اور اسرائیل پاک سر زمین کو اتنی بڑی سزادینا چاہتے ہیں اور ایک بھائی کو دوسرے بھائی سے باہم دست وگریباں کرنا چاہتے ہیں۔
اب آئیے ذرا شام کی صورتحال بھی دیکھ لیجئے! شام میں آخر کیا ہو رہاہے؟ یہ سوال ہر ذی شعور کے دماغ میں گونج رہا ہے ،یقینا یہ ایک اہم ترین سوال ہے۔شام ایک ایسی ریاست اور حکومت والا ملک ہے کہ جس نے روز اول سے جہاں فلسطینی کاز کی نہ صرف زبانی حمایت جاری رکھی ہے بلکہ عملی طور پر لاکھوں فلسطینیوںکو شام میں حقوق بھی فراہم کئے ہیں اور فلسطینیوں کی ہر محاذ پر عملی مدد بھی کی ہے ،آج شام میں چند دہشت گرد گروہ نکل کھڑے ہوئے ہیں جو دنیا کے دوسرے ممالک سے وہاں پہنچائے جا رہے ہیں تا کہ شام کی حکومت کو عدم استحکام کا شکار کیا جائے اور شام پر مکمل کنٹرول حاصل کرنے کے بعد فلسطینی تحریکوں کو کچل دیا جائے ۔شام کی سرحد گولان کی پہاڑیوں پر تو اسرائیل پہلے سے ہی موجود ہے بس وہ اس بات کا انتظار کر رہے ہیں کہ کب موقع ملے اور وہ شام پر قبضہ کر کے فلسطینی مزاحمتی تحریک کو نابود کر دیں ۔
دوسری طرف شام کی حکومتی اصلاحات کی بات کی جا رہی ہے جو امریکہ اور یورپ کی جانب سے بھرپور پراپیگنڈے کی وجہ سے منظر عام پر ہے ،یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر شام میں جمہوریت کی ضرورت ہے تو اسی طرح دیگر ممالک میں کہ جہاں بادشاہی نظام موجود ہے وہاں بھی جمہوریت ہونی چاہئیے ،آخر یہ امریکہ کا کیسا مطالبہ ہے کہ شام میں جمہوریت ہونی چاہئیے لیکن دوسرے ممالک جو امریکہ کے غلام ہیں ان کے لئے یہ رویہ اختیار نہیں کیا جا رہا؟
اگر شام کے اندر حکومتی اصلاحات کی ضرورت ہے تو یہ شام کا اندرونی مسئلہ ہے اور کسی کو بھی اس میں دخل اندازی کرنے کی ضرورت نہیں،اور اگر عوام انقلاب لانے کے لئے سڑکوں پر آ گئے ہیں تو حکومت کو ان کا احترام کرنا چاہئیے لیکن صورتحال اس کے بر عکس ہے ،عوام کی بھرپور حمایت اپنی حکومت کے ساتھ موجود ہے لیکن چند گروہ جن کو کچھ عرب ممالک اور خصوصاً امریکہ اور اسرائیل کی حمایت حاصل ہے وہ اسرائیلی اسلحہ کے زور پر شام کی حکومت کو بدلنے کا خواب دیکھ رہے ہیں ،میں آپ سے سوال کرتا ہوں کہ کیا کوئی انقلاب عوام کو قتل کرنے سے آ سکتا ہے یا عوام کی انقلابی تحریک سے انقلاب آتا ہے؟ یقینا آپ کا جواب ہو گا کہ عوام کی عوامی اور انقلابی تحریک ہی کسی انقلاب کا سبب بن سکتی ہے
جیسا کہ ماضی اور حال کی مثالیں ہمارے سامنے موجود ہیں ،ماضی میں ایران کے اسلامی انقلاب میں کسی دہشت گرد گروہ نے اسلحہ اٹھا کر عوام کا قتل عام نہیں کیا بلکہ عواموں نے دہشت گردوں کا صفایا کیا اور امریکی و اسرائیلی ایجنٹوں کو اپنی سر زمین سے نکال باہر کیا،اسی طرح مصر میں ہم نے بھرپور مشاہدہ کیا کہ مصر کے اسلامی انقلاب میں عواموں نے اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر انقلابی تحریک کو سرخرو کیا نہ کہ کسی دہشت گرد گروہوں نے تحریک کی کامیابی میں اسرائیلی اور امریکی اسلحہ کے زور پر انقلاب برپا کیا۔تو یہاں ایک بات تو بڑی واضح ہو جاتی ہے کہ انقلاب کا اصل راستہ عوامی جدوجہد ہی ہوتا ہے نہ کہ شام کی طرح کہ جہاں چند امریکی و اسرائیلی اور عرب ممالک کے ایجنٹ دہشت گرد عوام کا قتل عام کر رہے ہیں اور انقلاب کی بات کرتے ہیں ۔یہاں پر بھی ان دہشت گردوں کو جو اسلحہ فراہم کیا جا رہا ہے وہ زیر زمین سرنگوں سے ترکی اور دیگر راستوں کے راستے شام تک پہنچایا جا رہا ہے تا اور یہ تمام اسلحہ اسرائیلی اسلحہ ہے جس کا مقصد صرف اور صرف شام کے عوام کا قتل عام کرنا اور شام کو عدم استحکام کا شکار کرنا ہے۔
دوسری جانب انتہائی اہمیت کی بات یہ ہے کہ اسرائیلی ذرائع ابلاغ کے حالیہ انکشاف کے مطابق اسرائیلی کنیسٹ میں حزب اقتدار کے رکن پارلیمان میخائل بن آری نے اسرائیلی حکومت سے فوجی صنعتوں کو بند کرنے کا مطالبہ کیا اور کہا ہے کہ اسرائیل اپنے اسلحہ کی ترسیل کے ذریعے دنیا بھر میں قتل و غارت گری کی حوصلہ افزائی کر رہا ہے۔کثیر الاشاعت اسرائیلی روزنامے ”معاریف“ نے لکھا ہے کہ انٹرنیٹ پر معروف ویب سائٹ یوٹیوب پر موجود ایک ویڈیو، جس کا ترجمہ انگریزی زبان میں کیا گیا ہے، میں یہ رکن پارلیمان اس بات پر گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کر رہے ہیں کہ اسرائیل دنیا بھر میں اسلحہ کے پھیلاو¿ کا ذریعہ بن چکا ہے۔
ان کا کہنا ہے ”اگر میں اسرائیل کا وزیر اعظم ہوتا تو اسرائیل سے اسلحے کی برآمد پر پابندی عائد کر دیتا اور اور ایک گولی بھی برآمد نہ ہونے دیتا“ یوٹیوب پر نشر اس ویڈیو میں فلسطینی رکن پارلیمان اعتراف کر رہے کہ اسرائیل میں اسلحہ سازی اور پھر اس اسلحہ کی مختلف ممالک تک ترسیل دینا بھر میں قتل و غارت گری اور جنگوں کا سبب بن رہی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ کتنی بار ایسا ہوا کہ ہم نے دنیا میں امن برقرار رکھنے کے لیے اسلحہ برآمد کیا اور یہ اسلحہ قتل و غارت گری میں استعمال ہوا، ایشیاءہو،افریقا ہو یا ایران۔ عراق جنگ کے دوران ہر جگہ ہم نے اسلحہ برآمد کیا جو جنگوں میں استعمال ہوااور قتل و غارت گری میں استعمال ہوا۔
ان کا کہنا تھا کہ اسرائیلی رہنما ایک جانب سے قیام امن کا راگ الاپ رہے ہوتے ہیں اور ساتھ ہی عسکری صنعتوں کو ترقی دینے میں مصروف رہتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ دنیا میں قتل و غارت گری کا بازار گرم ہے، یہ سلسلہ ہر صورت ختم ہونا چاہیے اور یہ صرف اس صورت ممکن ہے کہ اسرائیلی اسلحہ کی ترسیل کو دنیا بھر میں روکا جائے اور دہشت گردی میں استعمال ہونے والے اسرائیلی اسلحہ اور اسرائیل سے مربوط گروہوں کی سرکوبی کی جائے۔
بشکریہ: ماہنامہ وائس آف فلسطین