اقوام متحدہ کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق اسرائیلی حکومت نے القدس اور مغربی کنارے میں فلسطینیوں کے 96 مکانات مسمار کرکے 130 خاندانوں کو ہجرت پر مجبور کیا ہے۔ یہ تعداد پچھلے سال اسی عرصے میں گرائے جانے والے 56 کے مقابلے میں 40 زیادہ ہے۔ فلسطینی اراضی کے لیے اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے رچرڈ فولک کے مطابق یہ کارروائی سال کے آغاز سے تاحال کی گئی ہیں جن میں ایک سو پچھتر سے زائد فلسطینیوں، جن میں اکثریت بچوں کی ہے، کو علاقے سے بے دخل کر کے یہودی بستیوں کو توسیع دی گئی ہے۔ فولک نے اسرائیلی حکومت سے مغربی کنارے میں فلسطینیوں کو بے گھر کرنے کے اس سلسلے کو فی الفور روکنے کا مطالبہ کیا ہے۔ فولک نے بتایا کہ فلسطینیوں کے گھروں کو منہدم کرنے کا سب سے بڑا جواز بغیر اجازت تعمیر کو قرار دیا جا رہا ہے حالانکہ یہاں پر کسی فلسطینی کو گھر کی تعمیر کی اجازت ملنا جوئے شی لانے کے مترادف ہے۔ اقوام متحدہ کے عہدے دار نے کہا کہ اسرائیل کی اس مجرمانہ پالیسی سے ایک طرف بے گھر ہونے والے خاندانوں کی تکالیف میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے تو دوسری جانب ان کارروائیوں سے اسرائیل کی فلسطینی علاقوں کو خود میں ضم کرنے کی پالیسی بھی آشکار ہو رہی ہے جو اسرائیل کی سیاسی منصوبہ بندی کا ہی ایک حصہ ہے۔ اپنے بیان میں فولک نے حال ہی میں مشرقی القدس کے علاقے بیت حنینا میں دو رہائشی گھروں کو گرانے کے عدالتی احکامات پر بھی گہرے رنج کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ڈیڑھ سو سے زائد فلسطینیوں کو گھر خالی کرنے کے لیے محض دو یوم دیے گئے ہیں۔