فلسطینی مجلس قانون سازکےاسپیکر ڈاکٹرعزیز دویک نے کہا ہے کہ مقبوضہ مغربی کنارےمیں صدر محمود عباس کی جماعت “الفتح” کی حکمران اتھارٹی “آوارگی” کا شکار ہے. خاص طور سے مصر اور تیونس میں آنے والے انقلابات کے بعد فلسطینی اتھارٹی کو کچھ سمجھ نہیں آ رہا کہ وہ اپنا راستہ کیسے متعین کرے اور خود کو بچانے کے لیے اسے کیا کرنا چاہیے. ان کا کہنا تھا کہ موجودہ حالات میں انہیں فتح کےساتھ مفاہمت ہوتی دکھائی نہیں دیتی کیونکہ فلسطینی اتھارٹی کی سرکردہ قیادت اس کے لیے عملاً تیار نہیں. عربی اخبار”فلسطین الیوم” کوانٹرویو دیتے ہوئے ڈاکٹرعزیز دویک کا کہنا تھا کہ فلسطینی اتھارٹی اندرخانہ پھوٹ درپھوٹ کا شکارہے. جتنے منہ اتنی باتیں ہیں. کچھ حضرات کہتے ہیں ہم حماس سے مفاہمت نہیں کرتے. دوسرے نکلتے ہیں اور بیان دیتے ہیں کہ ہم حماس کے تحفظات دور کرنے کے لیے تیار ہیں اور اسکے ساتھ بات چیت میں سنجیدہ ہیں. ایک اورصاحب آتے ہیں اور کہتے ہیں کہ انتخابات کا انعقاد عمل میں لایا جائے. یوں میرے خیال میں فلسطینی اتھارٹی خود ہی مخبوط الحواس ہو چکی ہے اور ملک کے سیاسی معاملات اس کے کنٹرول سے باہر ہو چکے ہیں. ایک دوسرے سوال کے جواب میں فلسطینی مجلس قانون سازکےاسپیکر نے اسرائیل کی ہٹ دھرمی کے باوجود محمود عباس اور ان کے گروپ کےصہیونی ریاست کےساتھ مذاکرات کے اصرار تنقید کی. ان کا کہنا تھا کہ صدر عباس اب بھی اسرائیل سے یہ امید لگائے بیھٹے ہیں کہ وہ کسی بھی وقت انہیں دوبارہ مذاکرات کی دعوت دے گا. انہوںنے فلسطینی اتھارٹی کے حکام سے مطالبہ کیا کہ وہ اسرائیل کی طرف اُمید کی نظریں لگانے کے بجائے اپنی قوم سے مفاہمت کریں تمام مسائل حل ہو جائیں گے. ڈاکٹردویک کہہ رہے تھے کہ فلسطینی اتھارٹی اور صدر محمود عباس کی جماعت کے پاس صرف دو ہی راستے ہیں یا تو وہ کھل کر اسرائیل کی گود میں جا بیٹھے اور فلسطینیوں کے حقوق اور مفادات کی اعلانیہ سودے بازی کرے.ایسی صورت میں فلسطینی عوام خود ہی اپنے حقوق کے حصول کے لیے باہرنکلیں گے اور کسی کو سودے بازی کی اجازت نہیں دیں گے. دوسرا راستہ فلسطینی عوام کی امنگوں کی ترجمانی کا راستہ ہے. وہ راستہ مزاحمت سے ہو کر گذرتا ہے. یہ وہ راستہ ہے جس پر محمود عباس اور ان کی جماعت کو بالآخر آنا ہو گا، کیونکہ اسرائیل کے ساتھ دوستانہ روابط زیادہ دیر تک چلتے دکھائی نہیں دیتے. انہوں نے کہا کہ فلسطینی اتھارٹی کویہ بھول جاناچاہیے کہ اس کے اسرائیل کےساتھ کس نوعیت کے تعلقات ہیں. مذاکرات کہاں پہنچے ہیں یا نہیں پہنچے. اسے صرف قومی سیاسی جماعتوں کےساتھ مفاہمت کرنا ہو گی ورنہ اس کا انجام مصر میں حسنی مبارک اور تیونس میں زین العابدین بن علی سے اچھا نہیں ہو گا.