ایرانی صدر ڈاکٹر محمود احمدی نژاد نے امریکہ سمیت یورپی ممالک کو انتباہ دیا ہےکہ اگر انہوں نے شمالی افریقہ اور مشرق وسطی کے ممالک میں فوجی مداخلت کی تو خطے کی اقوام ان کے خلاف اٹھ کھڑی ہوں گی اور اس علاقے کو ان کے فوجیوں کے قبرستان میں تبدیل کردیں گی۔ ڈاکٹر محمود احمدی نژاد نے مغربی ایران میں واقع شہر خرم آباد میں ایک بہت بڑے عوامی اجتماع سے خطاب کے دوران یورپی ممالک کو مخاطب کرتے ہوۓ کہا کہ دس سال قبل امریکہ نے گیارہ ستمبر کے واقعات کے بہانے عراق اور افغانستان پر حملہ کیا اور اب وہ تشہیراتی مہم کے ذریعے خطے کے بعض ممالک میں فوجی مداخلت کرنے کا راستہ ہموار کررہا ہے۔ احمدی نژاد کی جانب سے یورپی ممالک کو انتباہ در حقیقت لیبیا میں امریکہ کی ہر طرح کی فوجی مہم جوئی کے منفی نتائج کی جانب اشارہ ہے ۔ لیبیا میں جھڑپوں میں پیدا شدہ شدت کو ایک ہفتہ گزرنے اور ہزاروں افرادکے قتل ، زخمی اور لاپتہ ہونے کے بعد اب ایسا لگتا ہےکہ یورپ خطے کے ممالک کا مستقبل اپنے ہاتھ میں لینا اور اپنے پٹھوؤں کو ان ممالک میں بر سر اقتدار لانا چاہتا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہےکہ یورپ کی سامراجی پالیسیاں اب ناکام ہوچکی ہیں کیونکہ خطے کے ممالک بیدار ہوچکے ہیں اور وہ ذلت اور انحصار کی جڑیں اکھاڑ پھینکنے کے لۓ میدان عمل میں آچکے ہیں۔ اگرچہ دباؤ کا مقابلہ کرنا آسان نہیں ہے لیکن اس کے معنی یہ نہیں کہ خطے کی اقوام امریکہ کے ساتھ مل جائيں گی۔ کیونکہ یہ امریکہ ہی ہے جو مشرق وسطی اور شمالی افریقہ کے ممالک کی مشکلات کی اصل وجہ ہے۔ امریکی حکام خطے کی صورتحال کا جائزہ لیتے ہوۓ ان تحریکوں کے اصل اسباب کو نظر کرنے اور ان تحریکوں کو اقتصادی اور غیر اقتصادی مسائل کا نتیجہ قرار دینے کی کوشش کررہے ہیں۔ اگرچہ یہ مسائل بھی ان تحریکوں میں اپنا کردار رکھتے ہیں لیکن ان عظیم عوامی تحریکوں کا اصل سبب لوگوں کا اس ذلت کا احساس ہے جو خطے کے عوام کو امریکہ پر انحصار کرنے اور اس سے وابستہ ہونے کی بناء پر اٹھانی پڑ رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ صدر مملکت ڈاکٹر محمود احمدی نژاد نے بجا طور پر اس حقیقت کی جانب اشارہ کرتےہوۓ کہا ہےکہ جن ملتوں نے ڈکٹیٹروں کے خلاف قیام کیا ہے وہ جانتی ہیں کہ امریکہ اور اس کے اتحادی ان ڈکٹیٹروں کے تمام مظالم اور لوٹ مار میں برابر کےشریک ہیں ۔ اس تاریخی حقیقت کا تجربہ اس سے قبل عراق اور افغانستان میں ہو چکا ہےاور یہ مسلمہ حقیقت ہےکہ علاقائی اور عالمی راۓ عامہ بیدار ہے اور وہ عوام کی حمایت کے یورپ کے دعوے کو قبول نہیں کرتی ہے۔یہاں یہ سوال اٹھتا ہےکہ ظالم ڈکٹیٹروں کو ہتھیار فراہم کرنے اور ان ڈکٹیٹروں کی سیاسی حمایت کرنے والوں کو اب لیبیا میں عوام کے قتل عام پر تشویش کیوں ہونے لگی ہے اور وہ اس قتل عام کو اپنی فوجی مداخلت کا پیش خیمہ کیوں قرار دینے لگے ہیں؟