باوثوق فلسطینی ذرائع کے مطابق عرب دنیا کی جانب سے انتہائی رسوائی پانے اور سلام فیاض کی حکومت کی جانب سے توہین آمیز سلوک کے بعد اس سال فلسطینی غیر آئینی صدر محمود عباس اپنا عہدہ چھوڑ دیں گے۔ ذرائع کے مطابق عباس کے اردن کے ساتھ تعلقات بھی انتہائی کشیدہ ہو چکے ہیں۔ فلسطینی اتھارٹی کے قریبی ذرائع نے بتایا ہے کہ مغربی کنارے میں صدر محمود عباس کو کوئی کنٹرول نہیں رہا بلکہ تمام معاملات سلام فیاض کے ہاتھوں میں چلے گئے ہیں۔ ذرائع نے بتایا کہ عباس کو اپنے آفس کے لیے مختص فنڈز کے حوالے سے بھی سخت ذلت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ تحریک فتح اور محمود عباس کا حکومت میں رسوخ اس قدر کم ہو چکا ہے کہ وہ سلام فیاض کی غیر آئینی حکومت کے فقط دو وزیروں کو برخاست کرنے سے بھی عاجز ہو چکے ہیں۔ اتھارٹی کے تمام فنڈز پر بھی صرف سلام فیاض ہی کی رسائی ہے۔ ذرائع کے بہ قول عباس کو اردن میں بھی شدید تنقید کا سامنا ہے۔ اردن کے شاہی محل کے ساتھ ان کے تعلقات کشیدگی کا شکار ہیں تاہم اتھارٹی کے ذرائع اس کو چھپانے کی کوشش کر رہے ہیں مزید برآں مصر کی جانب سے بھی موجودہ حالات پر کسی خوشی کا اظہار نہیں کیا گیا۔ اسرائیل سے خفیہ مذاکرات میں مسلمہ فلسطینی حقوق سے دستبرداری کی دستاویز لیک کیے جانے پر فلسطینی حکومت کے ذرائع کا کہنا تھا کہ اگرچہ میڈیا میں مذاکرات کرنے والے ڈیپارٹمنٹ کے ملازمین پر دستاویز لیک کرنے کا الزام لگایا جا رہا ہے تاہم فلسطینی اتھارٹی کے اندر فتح کے باغی رہنما دحلان کو اس کا ذمہ دار سمجھا جا رہا ہے کیونکہ حالیہ دنوں دحلان کے محمود عباس سے شدید اختلافات منظر عام پر آئے تھے۔ ذرائع نے بتایا کہ عرب ٹی وی چینل ’’الجزیرہ‘‘ کو حاصل ہونے والی دستاویزات صرف اسرائیل اور فلسطینی اتھارٹی کے درمیان مذاکرات سے متعلق ہی نہیں ہیں بلکہ ان دستاویز میں عام طور پر مذاکرات میں شامل نہ کیے جانے والے سکیورٹی امور پر مشتمل دستاویز بھی شامل ہیں۔