اسرائیلی ذرائع ابلاغ کے مطابق مقبوضہ بیت المقدس کی صہیونی بلدیہ کی ’’بلڈنگ اینڈ پلاننگ کمیٹی‘‘ اگلے ہفتے شہر کی یہودی بستی ’’گیلو‘‘ میں مزید یہودیوں کو بسانے کے لیے 1400 نئے گھروں کی تعمیر کے منصوبے پر غور و خوض کرے گی۔ اسرائیلی ریڈیو کے مطابق قابض بلدیہ سیاسی وجوہات کی بنا پر 2008ء سے زیر التوا اس منصوبے کو منظور کرانے اور اس کو حتمی شکل دینے کے لیے کوشاں ہے۔ اس منصوبے کو صہیونی حکومت اور امریکی انتظامیہ میں کشیدگی کے سبب بند کر دیا گیا تھا۔ یہودی آبادکاری کے اس بڑے منصوبے کے منظر عام پر آنے کے بعد مشرقی القدس میں غم و غصہ کی لہر دوڑ گئی ہے۔ القدس کی مقامی کمیٹی کے رکن مئیر مرگلیٹ نے اس منصوبے کو سابقہ تمام تعمیراتی منصوبوں سے زیادہ خطرناک قرار دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسرائیلی ’’گیلو‘‘ بستی کی سرحد پر نئی تعمیرات کر کے اسے مغربی کنارے کی سرحد سے ملانا چاہتا ہے۔ دوسری جانب یہودی بستیوں کی تعمیر کی مخالف صہیونی جماعت ’’پیس ناؤ‘‘ نے بھی اس منصوبے پر کڑی تنقید کی ہے۔ جماعت کے ڈائریکٹر جنرل ’’یارو اوفن ھایمر‘‘ نے اس منصوبے پر عالمی برادری کے ردعمل پر بھی افسوس کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ اسرائیل کی اصلیت کھل کر دنیا کے سامنے آ چکی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ منصوبہ گرین لائن سے خارج علاقوں میں سب سے بڑا یہودی آبادکاری کا منصوبہ ہے۔ یہ یہودی بستی حجم میں اس سے قبل ’’ھار حوما‘‘ اور ’’رمات شلومو‘‘ نامی یہودی بستیوں سے بھی بڑی ہو گی۔