1967ء سے اسرائیلی زیر تسلط مشرقی القدس کو یہودی رنگ میں رنگنے کی مہم عرصے سے جاری ہے، حال ہی میں مشرقی اور مغربی متحد القدس کو یہودی ریاست کا دارالخلافہ ثابت کرنے کے لیے اسرائیلی میڈیا نے بڑے پیمانے پر ایک مہم شروع کر دی ہے۔ ’’القدس سے دستبرداری ناجائز‘‘ کے عنوان سے شروع کی گئی یہ کمپین بھی آئندہ ہفتوں میں القدس کی صہیونی بلدیہ کی ان کوششوں کا ہی ایک حصہ ہے جس میں بلدیہ اسرائیلی حکومت پر القدس میں ترقی کی رفتار تیز کرنے کا دباؤ بڑھائے گی۔ اس ضمن میں القدس کی بلدیہ کو اسرائیلی وزارت مالیات کی جانب سے ’’ارنونا‘‘ کے نام سے معروف گھروں پر ٹیکس کی شرح بڑھانے اور کم آمدنی والے یہودیوں پر ٹیکس میں چھوٹ کم کرنے کا اجازت نامہ بھی دے دیا گیا ہے۔ واضح رہے کہ اسرائیل نے 1967ء کی عرب اسرائیل جنگ میں مشرقی القدس پر قبضہ کے بعد 1980ء کے متحد القدس کے قانون کے تحت مشرقی اور مغربی متحد القدس کو اسرائیلی یہودی ریاست کا دارالخلافہ قرار دیا ہے جسے تمام اسلامی ممالک کے ساتھ دنیا بھر کے ممالک نے رد کر دیا۔ یہی وجہ ہے کہ اقوام متحدہ اور عالمی برادری مشرقی القدس کو مقبوضہ علاقے گردانتے ہیں۔ اسرائیل اور فلسطین تنازع میں القدس کی حیثیت کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ مسلمانوں کے قبلہ اول مسجد اقصی کے ساتھ ساتھ متعدد تاریخی مقامات اسی شہر میں واقع ہیں۔ صدیوں سے مسلمانوں کے زیر نگین رہنے والے بیت المقدس پر قبضے کے ساتھ ہی اسرائیل نے اس کو یہودی مقام دینے کی کوششیں شروع کر دیں۔ یہودی ریاست مسجد اقصی کی جگہ ھیکل سلیمان قرار دینے کے لیے مسجد کو انہدام کے لیے مختلف حیلے بہانوں سے زیر زمین سرنگیں کھود رہا ہے۔ القدس میں فلسطینیوں کے گھروں کے انہدام، ان پر قبضہ کرنے کی کارروائیاں کی جا رہی ہیں۔ یہودی آبادکاری کے بڑے منصوبے جاری ہیں، القدس میں یہودیوں کو بسانے اور اس شہر کو توسیع دینے کا مقصد یہاں آبادی کے تناسب کو تبدیل کرکے یہودی آبادی والا شہر قرار دینا ہے۔ گزشتہ سال 26 ستمبر کو پورے مغربی کنارے اور القدس میں یہودی بستیوں کی تعمیر پر دس ماہ کی پابندی کا خاتمہ ہوتے ہیں اسرائیل نے ایک بار پر اس شہر میں بڑے پیمانے پر یہودی تعمیرات شروع کر دی ہیں۔ شہر کی اولڈ میونسپلٹی کے تحفظ اور تعمیر نو کی آڑ میں ان کو یہودی مذہبی علامات سے مزین کیا جا رہا ہے۔