اسلامی تحریک مزاحمت (حماس) نے کہا ہے کہ فلسطین میں مفاہمت اور قومی وفاق کی یکجہتی اس کی اولین ترجیح ہے جس کے لیے مفاہمت کی کوششیں کی جارہی ہیں۔حماس مصر کے ساتھ مفاہمت کے سلسلے میں گذشتہ عرصے میں طے پانے والے امور کی پابندی کی جائے گی، تاہم مفاہمت سے متعلق جن نکات کا اضافہ کیا گیا ہے ان پربات چیت ناگزیر ہے۔ غزہ میں حماس کے ترجمان ڈاکٹر سامی ابو زھری نے ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مصر کے مفاہمتی مسودے کے حوالے سے حماس کا اور کوئی مقصد نہیں، ہم چاہتے ہیں کہ ان تمام امورپرعمل درآمد کیا جائے جن پرماضی میں اتفاق رائے ہو چکا ہے۔ ترجمان نے مصر سے مطالبہ کیا کہ جو امور پہلے حتمی شکل اختیار کرچکے ہیں انہیں نہ چھیڑا جائے بلکہ ان پرتمام فلسطینی دھڑوں کو عمل درآمد کا پابندبنایا جائے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ حماس کا ایک اعلیٰ سطح کا وفد جلد قاہرہ کے دورے پرجا رہا ہے جو مفاہمتی فارمولے میں متنازعہ نکات پربات چیت کرے گا۔ ترجمان نے متنازعہ صدر محمودعباس کے اس بیان کو بھی شدید تنقید کا نشانہ بنایا جس میں انہوں نے کہا کہ تھا کہ حماس نے مفاہمتی فارمولے پردستخط نہ کیے تو وہ فلسطین میں انتخابات کے انعقاد کا اعلان کر دیں گے۔ ڈاکٹر ابوزھری نے کہا کہ محمود عباس کے اس نوعیت کے بیانات حماس پردباؤ ڈالنے اور تنظیم کو بلیک میل کرنے کی سازش ہیں۔ حماس کسی کے دباؤ میں آکر مفاہمتی یادداشت پردستخط نہیں کرے گی بلکہ مفاہمت کو اسی صورت میں قبول کرے گی جب یہ مسودہ فلسطینی عوام کے بنیادی حقوق کی ضمانت ثابت ہوسکتا ہے۔