فلسطینی مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے صہیونی فوج کے ممنوعہ آنسوگیس کے استعمال کا انکشاف ہوا ہے. ایک اسرائیلی اخبار نے انکشاف کیا ہے کہ صہیونی فوج اور پولیس حکام فلسطینی مظاہرین کو کچلنے کے لیے اس ممنوعہ نوعیت کی آنسوگیس کو کئی ماہ سے استعمال کرتے چلے آ رہے ہیں، جس سے درجنوں افراد زخمی اور معذور ہو چکےہیں. اسرائیلی کے عبرانی زبان کے معروف اخبار “ہارٹز” نے اپنی جمعرات کی اشاعت میں شائع رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ اسرائیلی فوج جدید ترین نوعیت کے آنسو گیس کےشیل فائر کرنے کے لیے 40 ملی میٹر دھانے والی آنسو گیس گنیں استعمال کرتے ہیں جو 250 میٹرکے فاصلے پر آنسو گیس کے شیل فائر کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں. رپورٹ کے مطابق اسرائیلی فوج کےہاتھوں فلسطینی مظاہرین پر آنسوگیس کے ممنوعہ گولوں کو بے دریغ استعمال کیا جاتا رہا ہے. پچھلے کئی ماہ سے صہیونی فوج نسلی دیوار اور یہودی آبادکاری کےخلاف مغربی کنارے میں فلسطینیوں کے مظاہروں پر یہ گیس استعمال کرتی رہی ہے. رپورٹ کے مطابق ممنوعہ گیس کے گولوں کے استعمال سے درجنوں افراد معذور ہو چکے ہیں. ان میں کئی ایسے ہیں کئی کئی ماہ گذرنے کے باوجود موت وحیات کی کشمکش میں ہیں. اخبار لکھتا ہے کہ مارچ 2009ء میں مقبوضہ مغربی کنارے میں فلسطینیوں کے مظاہرے میں شریک ایک غیر ملکی شہری ٹریسن انڈرسن کے سر میں آنسو گیس کا ایک گولا لگا تھا جس سے وہ ابھی تک جان بر نہیں ہو سکا. اسی طرح اپریل 2009ء میں رام اللہ میں ایک احتجاجی مظاہرے میں شریک بسام ابو رحمہ نامی شہری کے سینے میں اسرائیلی فوج کا داغا گیا آنسوگیس کا گولہ لگا جس سے اس کی موت واقع ہو گئی تھی. ہارٹز کے مطابق فلسطین میں انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیمیں اسرائیلی فوج کے زیراستعمال زہریلی آنسوگیس کو فلسطینی مظاہرین پر استعمال کرنے سے آگاہ ہیں. اس ضمن میں انسانی حقوق کی تنظیمیں کئی مرتبہ اس حساس معاملے کو عالمی سطح پر اٹھانے کے ساتھ ساتھ اسرائیلی حکومت سے بھی اس کی تحقیقات کا مطالبہ کر چکی ہیں تاہم اس کے باوجود نہ صرف یہ کہ ممنوعہ آنسوگیس کا استعمال نہیں روکا گیا بلکہ اس میں اضافہ کیا گیا ہے.