اسلامی تحریک مزاحمت” حماس” کے سیاسی شعبے کے رکن اور سابق فلسطینی وزیرخارجہ ڈاکٹر محمود الزھار نے کہا ہے کہ ان کی جماعت اسرائیل کے ساتھ قیدیوں کے تبادلے کے لیے کسی بھی ثالث کے ذریعے بات چیت کے لیے تیار ہے تاہم قیدیوں کے تبادلے کے سلسلہ میں سابقہ شرائط میں کوئی نرمی نہیں کی جائے گی. انہوں نے کہا کہ غزہ پر اسرائیلی حملے کا کوئی فوری امکان نہیں تاہم اگر جنگ مسلط کی گئی فلسطینی شہریوں نے بھی اپنے دفاع کا سامان کر رکھا ہے.حماس کے راہنما نے ان خیالات کا اظہار فلسطینی نیوز ایجنسی”الصفا” کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کیا. انہوں نے کہا کہ اسرائیل کی طرف سے قیدیوں کے تبادلے کے لیے ایک بار پھر آمادگی ظاہر کی جا رہی ہے ، اسرائیل اگر اس معاملے میں سنجیدہ ہے اور ماضی کی طرح ہٹ دھرمی کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہتا تو حماس بھی اس کے لیے تیار ہے. ایک سوال کے جواب میں ڈاکٹر الزھارکا کہنا تھا کہ حماس قیدیوں کے تبادلے کے لیے اپنی سابقہ شرائط پر قائم ہے. انہوں نے کہا کہ حماس اسرائیل کے ساتھ بالواسطہ بات چیت میں فلسطینی قوم کے مفاد کو مدنظر رکھے گی اور قیدیوں کے تبادلے کے لیے وہی کیا جائے گا جو فلسطینی عوام کےمفاد میں ہو گا. ایک دوسرے سوال پر حماس کے راہنما نے کہا کہ قیدیوں کے تبادلے کے لیے فہرست کی تیاری میں صہیونی جیلوں میں قید اسیران کے قائدین سے بھی مشاورت کی جائے گی.اس سلسلے میں قیدیوںسے رابطے کیے گئے ہیں. فلسطینیوں کے مابین مفاہمت سے متعلق سوال پر ڈاکٹر محمود الزھار نے کہا کہ حماس فتح سمیت تمام دیگر سیاسی دھڑوں کےساتھ بامقصد اور نتیجہ خیز مفاہمت کے لیے تیار ہے. اس سلسلے میں 20 اکتوبر کو دمشق میں فتح اور حماس کی قیادت کا ایک اہم اجلاس بھی منعقد ہو گا. اجلاس میں دیگر تمام حل طلب معاملات کو حتمی شکل دینے کی کوشش کی جائے گی.انہوں نے واضح کیا کہ مصالحتی کوششوں کی کامیابی کے لیے ضروری ہےتمام جماعتیں گروہی مفادات سے اوپر اٹھ کر اورغیرملکی ڈکٹیشن سے خود کو آزاد کر کے کوششیں کی جائیں. ڈاکٹرمحمود الزھار نے فتح کی مرکزی قیادت پر زور دیا کہ وہ مفاہمت کی فضا کو سازگار بنانے کے لیے مغربی کنارے میں حماس کے خلاف جاری انتقامی سیاست کو ختم کرنا ہو گا.