اسلامی تحریک مزاحمت “حماس”کےسیاسی شعبے کے رکن اور سابق وزیرخارجہ ڈاکٹر محمود الزھارنے کہا ہے کہ حماس اور فتح کے درمیان مصالحت کے سلسلہ میں کئی اہم امور اور بنیادی اختلافی نکات پراتفاق رائے پیدا ہو چکا ہے. آئندہ ملاقات میں دونوں جماعتیں کسی ایک ایجنڈے پر متفق ہو جائیں گی. مرکزاطلاعات فلسطین کو دیے گئے خصوصی انٹرویو میں ڈاکٹرالزھار کا کہنا تھا کہ فتح نے ماضی میں حماس کی کئی تجاویز کو ٹھکرا دیا تھا، تاہم اب اس نے مرکزی الیکشن کمیشن تنظیم آزادی فلسطین کی عبوری قیادت کے لیے حماس کی تجاویز کو تسلیم کر لیا ہے.ان کا کہنا تھا کہ فتح کے ساتھ صرف ایک نکتے پربات چیت باقی ہے اور وہ فلسطین میں مشترکہ سیکیورٹی کنٹرول ہے. اس ماہ ہونے والی ملاقات میں یہ توقع کی جا سکتی ہے دونوں بڑی جماعتیں کسی درمیانے حل تک پہنچ جائیں گی. غزہ میں حماس کے ارکان کے خلاف جاری کریک ڈاٶن اور جیلوں میں تشدد سے متعلق ایک سوال کے جواب میں حماس کے راہنما کا کہنا تھا کہ فلسطینی اتھارٹی کی عسکری لیڈرشپ مفاہمت نہیں چاہتی اور وہ اس سلسلے میں رکاوٹیں کھڑی کر رہی ہے. مغربی کنارے میں حماس کے کارکنان اور راہنماٶں کے خلاف جاری کریک ڈاٶن بھی اسی کا حصہ ہے. دوسرے معنوں میں عسکری قیادت اس کی راہ میں اصل رکاوٹ ہے. ایک دوسرے سوال کے جواب میں الزھار کا کہنا تھا کہ مفاہمت عسکری قیادت کے مفاد میں نہیں یہی وجہ ہے وہ اس راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرتی ہے.انکا کا کہنا تھا کہ مفاہمتی کوششوں کو معلق رکھنے کے لیے ایسی شرائط عائد کی جا رہی ہیں جو کسی بھی صورت میں پوری نہیں کی جا سکتی. اس طرح کی شرائط مذاکرات اور مفاہمت کے معاملے کو ایک بار پھر صفر تک لے جا رہی ہیں. ایک دوسرے سوال پر انہوں نے کہا کہ فلسطینی صدر محمود عباس کو بخوبی اندازہ ہے کہ موجودہ حالات میں مفاہمت کے سوا کوئی چارہ نہیں لیکن وہ اس کے باوجود بیرنی دباٶ کا شکار ہیں اور مفاہمت کے عمل میں غیرسنجیدگی کا مظاہرہ کر رہے ہیں.