اسرائیل کی ایک مجسٹریٹ عدالت نے بیت المقدس کے11 فلسطینی باشندوں کے ڈیڑھ ماہ کے لیے مسجد اقصیٰ میں داخلے پر پابندی کا فیصلہ دیا ہے. ملزمان کوحال ہی میں اسرائیلی پولیس نے مسجد اقصیٰ کے اندر سے نماز کی ادائیگی کے دوران حراست میں لیا گیا تھا. مرکز اطلاعات فلسطین کے مطابق بدھ کے روز مسجد اقصیٰ سے حراست میں لیے گئے 11 فلسطینی شہریوں کو بیت المقدس میں صہیونی حکومت کی ایک مجسٹریٹ عدالت کے روبرو پیش کیا گیا. سرکاری وکلاء نے عدالت کو بتایا کہ ملزمان یہودی آبادکاروں کی گاڑیوں پر پتھراٶ کر کے انہیں نقصان پہنچانے اور یہودیوں کے سامنے مسلمانوں کے حق اور اسلامی قومیت کے نعرے لگانے کے مرتکب ہوئے ہیں. مرکز اطلاعات فلسطین کےنامہ نگار کے مطابق اسرائیلی عدالت سے سزا پانے والے قیدیوں اور یہودی آباد کاروں کے مابین ایک روز قبل مسجد اقصیٰ کے باب اسباط کے مقام پر مڈھ بھیڑ ہو گئی تھی. اس موقع پر فلسطینیوں نے اللہ اکبر کا نعرہ بلند کرتےہوئے یہودیوں کو مسجد اقصیٰ میں داخل ہونے کی کوشش ناکام بنا دی تھی. تاہم اسی اثناء میں اسرائیلی پولیس اہلکار یہودیوں کے تحفظ کے لیےموقع پر پہنچ گئے. انہوں نے اسلام اور مسلمانوں کے حق میں نعرہ زن تقریبا ایک درجن افراد کو گرفتار کر لیا. تمام افراد کی گرفتاریوں کے دوران یہودیوں نے ان پر وحشیانہ تشدد بھی کیا جبکہ یہودی آبادکاروں نے ان کی گرفتاری میں پولیس کے ساتھ معاونت کی. دوسری جانب معروف فلسطینی وکیل خالد زبارقہ کا کہنا ہے کہ قابض اسرائیلی عدالت کی طرف سے گیارہ فلسطینیوں کو جن الزامات کے تحت شہربدری کی سزا سنائی گئی ہے، قانوناً ان الزامات کی کوئی حیثیت نہیں. اسرائیلی عدالت کو محض ایک بہانہ چاہیےتھا جس کی بنیاد پر فلسطینیوں کو شہربدر کرنے کا فیصلہ کیا گیا. انہوں نے کہا کہ یہ فیصلہ سراسر غیرقانونی اور غیرمنصفانہ ہے جس کی دنیا کے کسی قانون کے تحت گنجائش نہیں. اسرائیل اس طرح کے فیصلے دے کریہودی آبادکاروں کی مسجد اقصیٰ میں حملوں کی حوصلہ افزائی کر رہا ہے.