زیتون کا پھل پکنے کے موسم میں وہ فلسطینی انتہائی پریشانی اور تشویش کا شکار ہیں جن کی زمینیں نسلی دیوار کے پیچھے واقع ہیں- اسرائیلی حکام کی طرف سے پابندیوں کے باعث فلسطینی کسان اپنی فصل نہیں کاٹ سکتے- صہیونی ظالمانہ پابندیوں کی وجہ سے نسلی باڑ پر واقع فلسطینی دیہاتوں کے کسان گزشتہ کئی برسوں سے اپنی فصل سے محروم رہے ہیں- بالخصوص جنین کے دیہات ،عرفہ ، عانین ، زبدہ ،نزلہ زید ،طیبہ اور فقوعہ بڑے پیمانے پر اسرائیلی ظلم و ستم کا شکار ہوتے ہیں- جوں جوں زیتون کی فصل پکنے کا موسم قریب آ رہا ہے فلسطینی کسانوں میں غم اور خوف کے اثرات نمایاں ہو رہے ہیں – اسرائیلی حکام نے گزشتہ برس ان کسانوں کو اپنی زمینوں سے فصل کاٹنے کی اجازت نہیں دی تھی، جبکہ زیتون کی فصل ان کسانوں کا بنیادی ذریعہ معاش ہے- اجازت نامے کی پالیسی : اسرائیلی حکام سے اجازت نامہ حاصل کرنا فلسطینیوں کی اپنی زمینوں پر جانے کا واحد راستہ ہے – وہ اسرائیلی حکام سے اجازت نامہ حاصل کرکے نسلی دیوار کے دروازوں کے ذریعے اپنی فصلوں تک جا سکتے ہیں- اسرائیلی حکومت کو اپنی فصلوں پر جانے کی اجازت مخصوص موقع اور معینہ وقت کے لیے دیتی ہے – مزید برآں فصل پر جانے کا اجازت نامہ حاصل کرنے کے لیے انہیں بہت پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں- جنین کے طیبہ دیہات کے فلسطینی کسان محمد محاجنہ کہتے ہیں کہ ہم ہر سال زیتون کے موسم کا انتظار خوف کی حالت میں کرتے ہیں ، کیونکہ اپنی زمینوں پر جانے کے لیے ہمیں اسرائیلی حکومت سے اجازت نامہ حاصل کرنے کی ضرورت ہوتی ہے- اسرائیلی حکومت جب ہمیں اجازت دیتی ہے تو وہ اجازت چند گھنٹوں کے لیے ہوتی ہے – محمد محاجنہ نے کہاکہ زیتون کا پھل چننے کے لیے گھر کے ہر فرد کو جانا ہوتاہے – کیونکہ زیتون چننے کے لیے ایک فرد کافی نہیں ہوتا – اسرائیلی حکومت جبکہ ایک یا دو افراد کو فصل کاٹنے کی اجازت دیتی ہے – ستم بالائے ستم یہ ہے کہ نسلی دیوار کے دروازوں سے گزرنے کے اوقات مقرر ہیں – جس کی وجہ سے فصل کاٹنے کے لیے کافی وقت نہیں ملتا – زیتون کااکثر پھل درختوں پر ہی لگا رہتاہے- محمد محاجنہ نے مزید کہاکہ زیتون کی پیدا وار میں ہر سال کمی واقع ہو رہی ہے – نسلی دیوار کے دوردراز دروازے : فلسطینی کسانوں کو اسرائیلی حکام سے صرف اجازت نامہ کے حصول کی ہی مشکلات نہیں ہیں بلکہ اور بھی بہت سی مشکلات ہیں جن میں اہم ترین نسلی دیوار سے گزرنے کے لیے دور دراز کافاصلہ ہے – جنین شہر کے مغرب میں واقع عرقہ دیہات کے فلسطینی کسان سعید واکر کاکہناہے کہ اس کی زمینوں کے قریب نسلی دیوار پر دروازہ موجود ہے لیکن اسرائیلی حکام انہیں اس دروازے سے گزرنے کی اجازت نہیں دیتے بلکہ انہیں اپنی زمینوں پر جانے کے لیے دوسرے دیہات طورہ کے دروازے سے گزر نا پڑتاہے جس کی وجہ سے انہیں اپنی زمینوں پر جانے کے لیے بہت وقت لگتاہے – یہ مشکل اس وقت دوچند ہوجاتی ہے جب انہیں زیتون کی فصل زمینوں سے اٹھا کر گھر لانا پڑتی ہے – سعید واکر نے کہاکہ اسرائیلی حکومت فلسطینیوں کو تنگ کرنے کے لیے یہ پالیسی اپنائی ہوئی ہے – جس کا مقصد فلسطینیوں کو ان کی زیمنوں پر جانے اور فصلوں کی پیدا وار حاصل کرنے سے روکنا ہے – یہی وجہ ہے کہ متعدد فلسطینی اپنی زمینیں دوسروں کے حوالے کرنے پر مجبور ہیں – اسرائیلی حکام یہ تمام کارروائیاں سیکورٹی کے بہانے پر کرتی ہے – حالانکہ یہ زمینیں زیادہ بوڑھے مردو خواتین کی ہیں جو اسرائیل کے خلاف کسی بھی مزاحمتی سرگرمیوں میں شریک نہیں ہیں- عافین دیہات کے فلسطینی کسان راجح یاسین کا کہنا ہے کہ اسرائیلی حکومت نے رواں سال میں زیتون کی فصل کاٹنے کے لیے صرف 350اجازت نامے جاری کئے ہیں- جبکہ نسلی دیوار کے پیچھے 12 ہزار ایکڑ رقبے پر مشتمل زمین پر فلسطینیوں کی فصلیں ہیں اور ان فصلوں سے زیتون کا پھل چننے کے لیے ہزاروں اجازت ناموں کی ضرورت ہے – اس صورت میں وہ فلسطینی جن کو اجازت نامہ حاصل نہیں ہوا، وہ دوسروں کو تیسرے حصے پر اپنی فصلیں دینے پر مجبور ہوجاتے ہیں- راجح یاسین ے مزید کہا کہ اسرائیلی حکومت نے رواں سال اس بہانے کے ساتھ کم اجازت نامے جاری کئے ہیں کہ اس سال زیتون کے درختوں پر پھل کم لگا ہے- یہ بات صحیح ہے کہ فصلوں کی پیدا وار کم ہوئی ہے کیونکہ فلسطینی کسان اپنی فصلوں کی صحیح طریقے سے دیکھ بھال نہیں کرسکتے- زمینوں میں ہل چلانے ، پانی لگانے اور دوسری ضروریات پوری نہیں ہو رہی- یہی وجہ ہے کہ زمینوں کی پیدا وار میں ہر سال کمی واقع ہو رہی ہے – اسرائیلی سازشوں کے باوجود فلسطینی کسان کا اپنی زمینوں سے لگاؤ کم نہیں ہوا – وہ تمام مظالم کے سامنے ثابت قدم ہیں ، اس نے ثابت کردیا ہے کہ زمین کسان کی ماں ہے-