فلسطینی مجلس قانون ساز کی رکن اور شہید رہنما جمال منصور کی بیوی منیٰ منصور نے کہا ہے کہ مغربی کنارے میں دینی جنگ جاری ہے فلسطینی معاشرے میں سے آئمہ مساجد، مبلغین اور اشرافیہ کو گرفتار کیا جا رہا ہے، بالخصوص رمضان میں یہ جنگ اس قدر شدید ہو گئی ہے کہ اس سے قبل اسکی مثال نہیں ملتی۔ منیٰ منصور نے کہا کہ مغربی کنارے میں قائم رام اللہ کی غیر آئینی حکومت نے فلسطینی مسلمہ اصولوں اور تمام اخلاقی حدود کو پار کر دیا ہے۔ اس کی جانب سے فلسطینی مزاحمت اور فلسطینی قوم کے خلاف دینی، سیاسی اور سکیورٹی ہر محاذ پر جنگ جاری ہے۔ آئمہ مساجد کی گرفتاری اور مراکز تحفیظ القرآن کی بندش جیسی کارروائیوں کے سبب یہ دینی جنگ بن چکی ہے۔ انہوں نے مزید وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ محمود ھباش نے متعدد مساجد میں ائمہ اور خطباء کے ریٹائر ہونے کے بعد ان کی جگہ دیگر افراد سے پر کرنے سے انکار کر دیا، حالانکہ دوسری جانب سکیورٹی اور مزاحمت کو کچلنے کے نام پر اسرائیل کی بلامعاوضہ خدمت گزاری کرنے کے لیے سیکڑوں افراد کو نوکریاں دی گئی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ہر نماز کے بعد مساجد کو فی الفور بند کر دیا جاتا ہے اور وہاں پر کوئی دینی کام نہیں ہونے دیا جاتا، اسی طرح غرباء اور مساکین کو افطاری اور کھانا کھلانے کی دعوت سے بھی روکا جاتا ہے۔ اسی طرح زکواۃ کے لیے زکواۃ کمیٹیوں کی تشکیل سے انکار کر دیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ ایک طرف تو مساجد کے دینی کاموں کے لیے استعمال پر پابندی لگائی جا رہی ہے دوسری جانب اسلام کی صریح خلاف ورزی کرتے ہوئے لہو و لعب کے مراکز اور شراب خانوں کی دھڑا دھڑ اجازت دی جا رہی ہے۔ فلسطینی مجلس قانون ساز کی رکن نے کہا کہ فلسطینی مصالحت اور اتفاق کے راستے میں حائل سب سے بڑی رکاوٹ سیاسی گرفتاریاں ہیں، اور لوگوں کو اغوا کرکے پرتشدد تفتیشی کارروائیوں کی پالیسی اور لوگوں کو ملازمت سے محروم کر کے فقر و فاقہ پر مجبور کرنے جیسی کارروائیاں ہیں، اسرائیل اور فلسطین کے مابین براہ راست مذاکرات پر انہوں نے کہا کہ رام اللہ حکومت فلسطینی قوم پر اسرائیلی تصفیے کو مسلط کرنا چاہتی ہے، اس کا ثبوت مذاکرات کے خلاف اٹھنے والی ہر آواز کو دبانے سے بھی ملتا ہے، جیسا کہ پروٹیشٹنٹس کے نیشنل کنونشن ہال میں کیا گیا۔