اسلامی تحریک مزاحمت” حماس” کے سیاسی شعبے کے سبراہ خالد مشعل نے کہا ہےکہ فلسطینی اتھارٹی اور اسرائیل کے درمیان براہ راست امن بات چیت کی تیاریوں کا اصل ماسٹرمائینڈ امریکا ہے. اسرائیل سے مذاکرات فلسطینی عوام یا عرب ممالک کا فیصلہ نہیں بلکہ یہ واشنگٹن کا فیصلہ ہے جسے محمود عباس اور ان کی اتھارٹی کے ذریعے فلسطینیوں پرمسلط کیا جا رہا ہے. منگل کے روز دمشق میں ایک افطار پارٹی کے موقع پر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے خالد مشعل نے کہا کہ فلسطینی اتھارٹی نے اسرائیل سے براہ راست مذاکرات کی حامی بھر کے اپنی رہی سہی آئینی حیثیت بھی کھو دی ہے. بہ قول خالد مشعل کے” محمود عباس کی اوسلو اتھارٹی فلسطینی قوم کی نمائندگی نہیں کرتی وہ صرف امریکی مطالبات کے مطابق اُسی کے خاکوں میں رنگ بھرنے میں مصروف ہے”. خالد مشعل نے کہا کہ فتح کی ایگزیکٹو کمیٹی کے نامکمل کورم کی طرف سے کیا گیا فیصلہ امریکی احکامات ہی کی ایک بازگشت تھی. اس کا فلسطینی عوام سے کوئی تعلق نہیں. فتح ہی کے اندر سے کئی اہم راہنماٶں نے ان مذاکرات کی کھل کر مخالف کی ہے. اس کے علاوہ 11 فلسطینی نمائندہ جماعتیں اسرائیل سے براہ راست مذاکرات کی مشترکہ طور پر مخالفت کر چکی ہیں. خالد مشعل کا کہنا تھا کہ اسرائیل کے ساتھ براہ راست مذاکرات کرنے کی تیاری کرنے والا اوسلو گروہ نہایت محدود ہونے کے ساتھ تنہائی کا شکار ہے. اس نے خود کو امریکا اور اسرائیل کے ہاں گروی رکھ دیا ہے. یہ گروہ اپنی آئینی حیثیت کو باہر کے ممالک کی خوشنودی میں تلاش کر رہا ہے جبکہ اس کا فلسطینی عوام سے کوئی تعلق نہیں رہا. ایک سوال کے جواب میں خالد مشعل نے کہا کہ فلسطینی اتھارٹی نے اسرائیل سے مذاکرات کی حمایت کر کے خود کو کئی بحرانوں سے دو چار کر دیا ہے. اس ضمن میں اسرائیل نے مذاکرات کے لیے اسرائیل کو یہودی ریاست کے طور پر تسلیم کرنے کی شرط عائد کی ہے. اگرفلسطینی اتھارٹی میں اتنی جرات ہوتی تو نیتن یاھو مذاکرات کے لیے اس طرح کی شرائط عائد نہ کرتے. امریکا، روس، یورپی یونین اور اقوام متحدہ پر مشتمل گروپ چار کے فلسطین اسرائیل مذاکرات کے بارے میں کردار پر تبصرہ کرتے ہوئے خالد مشعل نے کہا کہ گروپ چار کی طرف سے جاری بیان کی کوئی حیثیت نہیں. یہ بیان فلسطینی عوام کوکسی بھی قسم کا ریلیف یا حق فراہم نہیں کر سکتا. رہا معاملہ امریکی وزیرخارجہ ہیلری کلنٹن کا تو وہ فلسطینی اتھارٹی کو تو ہرقسم کی شرائط سے باز رکھنے پر مجبور کر رہی ہیں لیکن اسرائیلی شرائط کو تسلیم کر رہی ہیں، جس سے مذاکرات کے ٹھیکیداروں کی نیت واضح ہو گئی ہے.
مذاکرات مسئلےکا حل نہیں بلکہ اس کا خاتمہ ہے ایک دوسرے سوال پر حماس کے راہنما خالد مشعل نے کہاکہ اسرائیل اور فلسطینی اتھارٹی کے درمیان ہونے والے مذاکرات سے مسئلہ فلسطین حل نہیں بلکہ یہ سرے سے ختم ہو جائے گا. ایسے مذاکرات فلسطینی عوام کے مفاد میں ہرگز نہیں ہو سکتے. یہ صرف امریکی صدر براک اوباما اور صہیونی وزیراعظم بنجمن نیتن یاھو کے مفادات کےپیش نظر ہو رہے ہیں ان کا عرب ممالک یا فلسطینی قوم کے مفادات سے کوئی تعلق نہیں. فتح کو مخاطب کرتے ہوئے خالد مشعل نے کہا کہ” فتح کی قیادت اپنے اندر بیداری اور زندہ ضمیر کا ثبوت فراہم کرتے ہوئے بے سود مذاکرات کی رٹ ختم کرنے کی کوشش کرے. ان مذاکرات میں فتح کا نام استعمال ہو رہا ہے جو فتح کی محبت وطن قیادت کے لیے ایک لمحہ فکریہ ہے”. خالد مشعل نے مصری صدر حسنی مبارک اور اردن کے شاہ عبداللہ دوم سے بھی مطالبہ کیا کہ وہ اسرائیل اور فلسطینی اتھارٹی کے درمیان براہ راست مذاکرات کی حمایت اور طرف داری ختم کریں کیونکہ یہ مذاکرات فلسطینی عوام کی حمایت کے بغیر ہو رہے ہیں. انہوں نے کہا کہ اسرائیل کے ساتھ مذاکرات کی کامیابی یا ناکامی دونوں صورتوں میں فلسطینی عوام کا نقصان اور قابض اسرائیل کا فائدہ ہے. اسرائیل مذاکرات کی آڑ میں فلسطینی عوام کو القدس کی سرزمین سے محروم کرتے ہوئے فلسطینی پناہ گزینوں کی واپسی کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرنا چاہتا ہے اور وہ سنہ 1967ء کی حدود میں واپس جانے پربھی تیار نہیں. قومی پالیسی کی تشکیل پرزور خالد مشعل نے فلسطینی جماعتوں بالخصوص مغربی کنارے میں حکمران جماعت الفتح سے مطالبہ کیا کہ وہ اسرائیل سے مذاکرات کے بجائے مزاحمت پر مبنی قومی پالیسی تشکیل دے. ان کا کہنا تھا کہ اس وقت فلسطینی عوام میں ایک نئی صف بند کے ساتھ ساتھ تنظیم آزادی فلسطین کی دوبارہ اصل شکل میں بحالی اور اسکی تنظیم نو کی اشد ضرورت ہے. موجودہ حالت میں فلسطینی اتھارٹی نہایت کمزور موقف اور طاقت کے ساتھ اسرائیل سے مذاکرات کر رہی ہے. مزاحمت کے ذریعے پہلے اپنی قوت اور طاقت مضبوط کی جائے بعد میں اس طاقت اور قوت کو استعمال میں لاتے ہوئے اپنی شرائط پربات چیت ہو تو کوئی حرج نہیں کیونکہ ایسی میں مذاکرات کی کامیابی یا اس کےنتیجہ خیز ہونے کا امکان ہے جبکہ موجودہ حالات میں اس امر کا امکان سرے سے نہیں.