جنرل ٹکا خان ایک پیشہ ور اور محنتی فوجیدنیا میں پاکستان کے سب سے بڑے دشمن بھارت اور اسرائیل ہیں،دونوں ممالک نے اپنی پاکستان دشمنی کبھی اخفاء میں نہیں رکھی۔ایسے میں کیا کسی بھارتی یا یہودی کا پاکستان میں موجود ہونا خطرے سے خالی ہو سکتا ہے،اور پھر موساد اور ”را“ کے غنڈوں کی موجودگی کیسے برداشت کی جا سکتی ہے؟ تھے۔محنت کے بل بوتے پر وہ سپاہی سے فوج کے سب سے بڑے عہدے تک پہنچے۔خدا نے ان کو شیر کا جگر دیا تھا۔وہ 1965ء میں میجر جنرل تھے۔انہوں نے بھارتی ٹینکوں کی یلغار کو دیکھتے ہوئے اپنے سپاہیوں سے جذباتی خطاب کیا اور اپنے جسم کےساتھ دو بم باندھ کر بھارتی ٹینکوں کو تباہ کرنے کے لئے چلنے لگے،تو کئی جوان اور افسر ان کو روک کر کھڑے ہو گئے اور اپنے جسم کے ساتھ بم باندھ کے دشمن کے ٹینکوں کے آگے لیٹ گئے۔جس سے دشمن کے ٹینکوں کا صفایا ہوا اور اس کا پاکستان کو تباہ کرنے اور وسیع علاقے پر قبضے کا خواب چکنا چُور ہو گیا۔محاذ پر ایک دن ٹکا خان نے دیکھا کہ ایک OP اپنی ہی پوزیشنوں پر توپ خانے سے فائرنگ کرا رہا تھا۔اسے فوری طور پر بلوایا گیا۔تھوڑے سے لیت و لعل کے بعد OP نے تسلیم کر لیا کہ وہ دشمن کے ہاتھوں بکا ہوا تھا۔جنگ کے دوران کیا ایسی حرکت قابلِ قبول ہو سکتی ہے؟۔ ٹکا خان نے اس کے اوپر ٹینک چڑھانے کا حکم دیدیا۔اس حکم پر فوری طور پر عمل درآمد بھی کر دیا گیا۔ قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کے چیئرمین سینیٹر طلحہ محمود نے انکشاف کیا ہے کہ پی ایس او نے 2008ء میں پاک ترک نامی کمپنی کو ملک بھر کے پٹرول پمپس کی مانیٹرنگ کیلئے مواصلاتی نظام نصب کرنے کا ٹھیکہ دیا،اس کمپنی کے سو فیصد شیئرز دو اسرائیلی کمپنیوں ”اورپاک اور ایلسن“ کے پاس ہیں،ان کمپنیوں کے انجینئر پاکستان آتے ہیں ان میں”موساد “ اور”را “کے ایجنٹ ہیں۔ان کمپنیوں میں کام کرنے والے بھارتی ڈائریکٹر کا نام”معدد لعل”جبکہ اسرائیلی فوج کے حاضر سروس میجر جنرل کا نام”ڈیم مالز”ہے۔ان کمپنیوں کے ایجنٹوں نے پاکستان کے تمام دفاعی اور حساس مقامات کے قریب مواصلاتی نظام نصب کر رکھا ہے،جس میں جی ایچ کیو اور ریڈ زون کا علاقہ شامل ہے۔ سینیٹرطلحہ محمود نے یہ انکشاف اپنی صدارت میں ہونے والے قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں کیا۔کمیٹی نے اسرائیلی کمپنی کو ٹھیکہ دینے کی فوری تحقیقات کیلئے وزارت پٹرولیم کو ہدایت جاری کر کے پندرہ روز کے اندر رپورٹ طلب کی۔اجلاس میں وزیر داخلہ،سیکرٹری داخلہ،سیکرٹری پٹرولیم،چیئرمین سی ڈی اے،پی ایس او کے نمائندوں،نیب حکام اور ایف آئی اے کے افسروں نے شرکت کی۔ کمیٹی نے پی ایس او حکام اور وزارت پٹرولیم سے جب اس ٹھیکے کے بارے میں استفسار کیا تو انہوں نے لاعلمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ معاہدہ سابقہ انتظامیہ نے کیا۔تاہم مینجنگ ڈائریکٹر نے اجلاس میں یہ بات تسلیم کی کہ پاک ترک کے پیچھے اسرائیلی کمپنیاں ہیں اور کہا کہ ہمیں وقت دیا جائے،تاکہ ہم مکمل تحقیقات کر کے حقائق سامنے لائیں۔کمیٹی نے وزارت پٹرولیم کو ہدایت کی کہ وزارت داخلہ کے تعاون سے اس پراجیکٹ کی تحقیقات کرا کے پندرہ دن کے اندر کمیٹی کو رپورٹ دی جائے تاکہ اس پر مزید کارروائی کرتے ہوئے ملکی سلامتی کے خلاف کام کرنے والے افسروں کو قرار واقعی سزا دلانے کیلئے اقدامات کئے جائیں۔ دنیا میں پاکستان کے سب سے بڑے دشمن بھارت اور اسرائیل ہیں۔ پاکستان قائدِاعظم نے انگریزوں کے ہاتھوں سے اس وقت چھینا،جب وہ برصغیر کے مسلمانوں کی تقدیر کا مالک ہندوﺅں کو بنانا چاہتے تھے۔اسلامی دنیا کی واحد ایٹمی طاقت ہونے کے ناطے اسرائیل کے لئے پاکستان کا وجود ناقابلِ برداشت ہے۔دونوں ممالک نے اپنی پاکستان دشمنی کبھی اخفاء میں نہیں رکھی۔ایسے میں کیا کسی بھارتی یا یہودی کا پاکستان میں موجود ہونا خطرے سے خالی ہو سکتا ہے،اور پھر موساد اور ”را“ کے غنڈوں کی موجودگی کیسے برداشت کی جا سکتی ہے؟۔ اسرائیلی کمپنیوں کی پاکستان میں سرگرمیوں کا انکشاف ایک انتہائی ذمہ دار شخص نے کیا ہے۔کمیٹی کی طرف سے وزارت پٹرولیم کو وزارت داخلہ کے تعاون سے اس پراجیکٹ کی تحقیقات کرا کے پندرہ دن کے اندر کمیٹی کو رپورٹ پیش کرنے کی ہدا یت محبِ وطن حلقوں کے لئے ایک بجھارت اور معمے سے کم نہیں۔ضرورت تو فوری طور پر نوٹس لینے کی ہے۔لیکن بات یہیں ختم نہیں ہو گئی۔یہاں وزیرِ داخلہ رحمان ملک کا عمل دخل ہو وہاں سے خیر کی خبر کیسے آ سکتی۔یہاں تو ملک صاحب بنفسِ نفیس موجود تھے۔انہوں وہی کیا اور کہا،جس کی وہ شہرت رکھتے ہیں۔ وزیر داخلہ رحمن ملک نے کہا ”سیلاب کی تباہ کاریوں کے باعث تمام افسر اس وقت متاثرہ علاقوں کی صورتحال مانیٹر کرنے اور وہاں امدادی سرگرمیوں میں مصروف ہیں،لہٰذا آئندہ ایک ماہ تک کمیٹی کا کوئی اجلاس نہ طلب کیا جائے۔اس وقت ملک حالت جنگ میں ہے۔“ ارضِ پاک پر دشمن کا قدم ایک لمحہ کے لئے بھی برداشت نہیں کیا جا سکتا۔15دن اور ایک ماہ تو معاملے کی سنگین نوعیت کے پیشِ نظر ایک لمبا عرصہ ہے۔ملک صاحب نے خود قرار دیا ہے کہ ملک حالتِ جنگ میں ہے،تو پھر فیصلے بھی جنگی نوعیت کے ہونے چاہیئں۔ان کمپنیوں کو فوری طور پر چلتا کر دینا چاہیے اور ٹکا خان کے فیصلے کی طرز پر ملک و قوم سے غداری کرنیوالوں کو ایک لمحہ ضائع کئے بغیر انجام تک پہنچا دینا چاہیے۔ فضل حسین اعوان “روزنامہ نوائے وقت”