اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو اور فلسطینی صدر محمود عباس نے ایک سال کے عرصہ میں بات چیت کا عمل مکمل کرنےسے اتفاق کیا ہے۔ دونوں رہ نماوں کے درمیان 2 ستمبر کو واشنگٹن میں مذاکرات کے آغاز پر اتفاق ہوا ہے۔ توقع ہے کہ اسرائیلی اور فلسطینی بھی ان میں شرکت سے اتفاق کریں گے اور امریکی صدربراک اوباما بھی اس موقع پرموجود ہوں گے۔ توقع ہے کہ امریکی صدر براک اوباما ستمبر کے اوائل میں اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو اور فلسطینی صدر محمود عباس کو براہ راست مذاکرات کے آغاز کے لیے واشنگٹن میں مدعوکریں گے۔ ان مذاکرات میں دیرینہ تنازعے کے حل کے لیے مقبوضہ بیت المقدس کی حیثیت، فلسطینی مہاجرین کی واپسی اور مجوزہ فلسطینی ریاست کی سرحدوں کے تعین کے حوالے سے تصفیہ طلب امور طے کیے جائیں گے۔ سفارتی ذرائع کے مطابق مشرق وسطیٰ کے بارے میں امریکا،اقوام متحدہ،یورپی یونین اور روس پرمشتمل گروپ چارکے نمائندے ایک اعلامیے کا مسودہ تیارکررہے ہیں جس میں فریقین پرزوردیا جائے گا کہ وہ ایک سال کے عرصے میں اپنی بات چیت مکمل کرکے کسی حتمی معاہدے تک پہنچیں۔ امریکی وزیرخارجہ ہلیری کلنٹن آج جمعہ کو اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان بیس ماہ کے وقفے کے بعد براہ راست امن مذاکرات کے دوبارہ آغاز کا اعلان کرنے والی ہیں۔ امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان فلپ کراولے نے جمعرات کو صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ”ہمارے خیال میں ہم فریقین کے درمیان براہ راست مذاکرات شروع کرنے کے بہت قریب ہیں۔ تاہم اس سلسلہ میں بعض تفصیلات ابھی طے کی جارہی ہیں”۔ کراولے نے کہا کہ ہلیری کلنٹن نے اردنی وزیرخارجہ نوصر جودہ اورسابق برطانوی وزیراعظم اورمشرق وسطیٰ کے لیےگروپ چارکے نمائندے ٹونی بلئیر کے ساتھ اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان براہ راست مذاکرات شروع کرنے کے حوالے سے تبادلہ خیال کیا ہے۔ واضح رہے کہ فریقین کے درمیان اسرائیل کی غزہ پر جارحیت کے بعد دسمبر2008ء میں مذاکرات منقطع ہوگئے تھے جس کے بعد متعدد کوششوں کے باوجود بھی یہ مذاکرات شروع نہیں ہوسکے اور فریقین اپنے اپنے موقف پر اڑ رہے ہیں۔ مئی میں امریکا کی ثالثی میں اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان بالواسطہ بات چیت شروع ہوئی تھی لیکن اس میں ابھی تک کوئی نمایاں پیش رفت نہیں ہوسکی۔