اسرائیلی کنیسٹ کے عرب کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے رکن محمد برکہ نے فلسطینی اتھارٹی اور اسرائیل کے درمیان براہ راست مذاکرات کو وقت کا ضیاع قرار دیا ہے. ان کا کہنا ہے کہ اسرائیلی وزیراعظم بجمن نیتن یاھو کی طرف سے مذاکرات کی کامیابی کے لیے اسرائیل کو بطور یہودی ریاست کے تسلیم کرنے کی شرط عائد کر کے مذاکرات کا شروع کرنے سے قبل ہی سبوتاژ کر دیا ہے. پیر کے روز عرب خبررساں ایجنسی “قدس پریس” سے بات چیت کرتے ہوئے محمد برکہ کا کہنا تھا کہ فلسطینی اتھارٹی اور اسرائیل کے درمیان بے مقصد مذاکرات کا سلسلہ پچھلے کئی سال سے جاری ہے. کئی بارفریقین میں براہ راست اور بالواسطہ بات چیت ہوچکی ہے تاہم مذاکرات کا کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا، اس کی بنیادی وجہ مذاکرات کی نہ تو کوئی پیش بندی کی گئی ہے اور نہ ہی پچھلے خطوط پر بات آگے بڑھانے کی کوشش کی گئی ہے. اسرائیل اپنے ظالمانہ اقدامات کے فروغ کے لیے مذاکرات کی آڑ میں وقت حاصل کرتا رہا ہے.ایک سوال کے جواب میں اسرائیلی کنیسٹ کے عرب رکن کا کہنا تھا کہ فلسطینی اتھارٹی اور اسرائیلی وزیراعظم کے درمیان حالیہ مذاکرات عالمی بالخصوص امریکی دباٶ کے تحت ہورہے ہیں اور افسوسناک امریہ ہے کہ اس دباٶ کو عملی شکل دینے کے لیے 13 رکنی عرب لیگ کی فالو اپ کمیٹی کی طرف سے مذاکرات کی حمایت کی گئی ہے. مذاکرات وقت کا ضیاع ہیں آنے والے وقتوں میں ان کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا. بہ قول محمد برکہ کے “اوباما اور نیتن یاھو کے تیار کردہ اسٹیڈیم میں محمود عباس کے کھیل کا کوئی کردار یا ان کی کامیابی دکھائی نہیں دیتی” ایک دوسرے سوال پر محمد برکہ نے کہا کہ اسرائیلی وزیراعظم کی جانب سے فلسطینی اتھارٹی کےساتھ مذاکرات شروع ہونے سے پہلے ہی مذاکرات کی کامیابی کے لیے اسرائیل کو بطور یہودی ریاست تسلیم کرانے کا مطالبہ کر کے مذاکرات کے شروعات سے پہلے ہی انہیں سبوتاژ کر دیا ہے.