جمعہ کے روز غزہ کی پٹی میں مختلف مزاحمتی اور اسلامی جماعتوں کی اپیل پر فلسطینی مقدسات کے تحفظ کے لیے یکجہتی مارچ کی کال پر ہزاروں افراد نے احتجاجی مارچ کیا۔ نماز جمعہ کے بعد غزہ کی پٹی کی تمام بڑی شاہراؤں سے شہریوں کی بڑی تعداد نے جمع ہونا شروع کیا۔ گلیوں اور محلوں سے بھی شہری احتجاجی مارچ میں شریک ہوئے، شرکاء میں خواتین، بچے، انسانی حقوق کی تنظیموں کے اراکین اور غیر ملکی سماجی کارکن بھی شامل ہے۔ مختلف علاقوں کی مساجد سے احتجاج کے لیے آنے والے ہزاروں افراد غزہ میں مجلس قانون ساز کی عمارت کے سامنے جمع ہوئے۔ مظاہرین نے ہاتھوں میں بینرز، کتبے ، پلے کارڈ اور فلسطینی پرچم اٹھا رکھے تھے، جن پر اسرائیل کی جانب سے الخلیل میں مسجد ابراھیمی اور بیت لحم میں مسجد بلال بن رباح کو یہودی ورثہ قراردینے کے خلاف، فلسطین میں یہودی آباد کاری، مسجد اقصیٰ کی بے حرمتی اور اسرائیل کی فلسطین میں ریاستی دہشت گردی کے خلاف نعرے درج تھے۔ گلیوں اور محلوں سے آنے والے شہریوں نے فلسطین میں اسلامی مقدسات کو یہودی ورثہ قرار دینے کی صہیونی کوششوں کے خلاف بھی شدید نعرے بازی کی گئی۔ اس موقع پر مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئے اسلامی تحریک مزاحمت (حماس) کے سیاسی شعبے کے رکن ڈاکٹر خلیل حیہ نے کہا کہ غزہ کے شہریوں کے اس جمع غفیر نے آج ثابت کر دیا ہے کہ اسرائیل اپنی تمام تر جارحیت اور دہشت گردی کے باوجود اسلامی مقدسات کو یہودی ورثہ قرار دینے میں کامیاب نہیں ہو گا، آج جس طرح حماس، جہاد اسلامی، مشترکہ مزاحمتی کمیٹیز،صاعقہ، جنرل لیڈر شپ اوردیگر جماعتوں نے اتحاد اور یگانگت کا مظاہرہ کرتے ہوئے فلسطین میں اسلامی مقدسات کے تحفظ کے لیے اپنی اجتماعی سوچ کا اظہار کیا ہے، وہ قابض اسرائیل کے لیے ایک واضح پیغام ہے کہ اسرائیل طاقت کے زور پر فلسطینی مقدسات کو یہودی ورثہ قراردینے میں کامیاب نہیں ہو سکے گا۔ انہوں نے کہا کہ آج تمام مکاتب فکرکے علماء اور شہریوں نے جس عزم اور یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے فلسطینی پرچم کے ساتھ وابستگی کا ثبوت دیا ہے اس کی ماضی میں مثال نہیں ملتی۔ خلیل حیہ نے اسرائیل کی جانب سے فلسطینی اسلامی مقدسات کو یہودی قراردینا کوئی انوکھا فیصلہ نہیں، فلسطینیوں کو اسرائیل سے اسی قسم کی توقع رکھنی چاہیے تاہم اس کے جواب میں فلسطینی عوام جس عزم کا اظہار کیا ہے، اسرائیل کو شائد اس کی فلسطینیوں سے توقع نہیں ہو گی۔ انہوں نے فتح کی جانب اسرائیل کے ساتھ مذاکرات جاری رکھنے کے عزم پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل ایک جانب فلسطینی مقدسات پر حملے کر رہا ہے، مغربی کنارے اور بیت المقدس میں یہودی آبادیاں قائم کر رہا ہے اور فتح کی قیادت آنکھیں بند کرکے اسرائیل سے بے سود مذاکرات کی رٹ لگائے ہوئے ہے۔ حماس کے راہنما نے فلسطینی اتھارٹی سے مطالبہ کیا کہ وہ اسرائیل سے فلسطینی عوام کے حقوق کو نقصان پہنچانے والے مذاکرات کا راستہ ترک کر دیں۔ مظاہرین سے جہاد اسلامی اور دیگر مزاحمتی، مذہبی اور سیاسی جماعتوں کے قائدین نے خطاب کیا۔ مقررین نے اسرائیل کی جانب سے فلسطینی مقدسات پر حملوں کی شدید مذمت کی جبکہ فلسطینی اتھارٹی کے اسرائیل سے مذاکرات کے فیصلے کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا۔