بیت المقدس میں اسلامی مسیحی نصرت القدس کمیٹی نے انکشاف کیا ہے کہ اسرائیل مسجد اقصیٰ کے جنوب مغرب کی سمت میں تاریخی جگہ”مقام براق”کے تمام اسلامی آثار و علامات کو مٹانے کے ایک خطرناک منصوبے پر عمل پیرا ہے.
خیال رہے کہ “براق” مسجد اقصیٰ کی وہ تاریخی جگہ ہے جہاں سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عالم بالا کے سفر کی تیاری کی تھی. اس اعتبار سے مسجد اقصیٰ کی جنوب مغربی سمت میں واقع یہ مقام اپنی ایک تاریخی حیثیت رکھتا ہے، جبکہ عیسائی بھی اس جگہ کے مقدس ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں. اس کے علاوہ 1929ء میں فلسطین پر برطانوی قبضے کے خلاف اسی مقام سے ایک انقلابی تحریک شروع ہوئی تھی، جسے بعد میں انقلاب براق کا نام دیا گیا تھا.
کمیٹی کی جانب سے مقام براق کے احاطے میں اسرائیل کی تازہ کھدائیوں کی تصاویر بھی جاری کی گئی ہیں. ان تصاویر میںیہ دکھایا گیا ہے کہ صہیونی حکام تیزی کے ساتھ مقام براق اور اس سے ملحقہ مقامات کو یہودی اور توراتی مقاصد کے لیے استعمال میں لانا چاہتے ہیں.
مقام براق کے قریب مسجد اقصیٰ کےمراکشی دروازے کے سامنے”توراتی میوزیم” بنانے کی تیاریاں کی جا رہی ہیں. توراتی میوزیم کی آڑ میں مسجد اقصیٰ کے اس مقدس حصے کو قبلہ اول سے الگ کر کے یہاں یہودیوں کی تقریبات کے لیے پارک اور دیگرعمارتیں بھی تعمیر کی جائیں گی.
رپورٹ کے مطابق اسرائیل مقام براق کے احاطے کے اور وہاں پر موجود قدیم ترین اسلامی آثار کو ختم کرنے کے لیے کئی قسم کی دیگر تبدیلیاں بھی کرنا چاہتا ہے.انہی جوہری تبدیلیوں میں براق جیسے مقدس مقام کو ٹیکسی اسٹینڈ اور پارکنگ کے لیے مخصوص کرنے کی ہوشش ہو رہی ہے.یہ ٹیکسی اسٹینڈ بیت المقدس کے قدیم دروازے”باب نبی داٶد” کے قریب بنائے جانے کی تیاریاں ہو رہی ہیں. پارکنگ کی یہ جگہ صرف اسی صورت میں مکمل ہو گی جب بیت المقدس کی اس قدیم دیوار کا بھی کچھ حصہ منہدم کر کے اس میں شامل کیا جائے گا.
کمیٹی نے مقام براق میں یہودیت کے نئے منصوبوں کی مزید تفصیلات بتاتے ہوئے کہا ہے کہ اسرائیل مقام براق کے احاطے میں کئی اہم عمارتوں کی تعمیر کر رہا ہے. انہیں عمارتوں میں “الگوہر ہاٶس” تین منزلہ عمارت تقریبا 3000 مربع میٹر پر تعمیر کی جائے گی. اس عمارت میں ایک میوزیم بنایا جائے گا جس میں صرف یہودیوں کی مذہبی تاریخی کی حامل قدیم اشیاء رکھی جائیں گی. اس کے علاوہ مقام براق کے جنوب مغرب میں”التورات ہاٶس” کے نام سے تعمیراتی منصوبہ زیرغور ہے.
تورات ہاٶس کے نام سے بنائی جانے والی یہ عمارت یہودی مذہبی تعلیمات کی ایک اہم درسگاہ پر مشتمل ہو گی. براق کے جنوب میں “ڈفیڈسون سینٹر” قائم کیا جا رہا ہے. ڈفیڈ سون ہاٶس البراق کے شرقا غربا پھیلے تاریخی پارک کے ساتھ تعمیر کیا جائے گا.
القدس کمیٹی کے مطابق اسرائیل مقام براق کے قریب کئی ٹیکسی اسٹینڈ بنانے کا ارادہ رکھتا ہے تاکہ یہودیوں کی آمد و رفت میں انہیں سہولت فراہم کی جا سکے. اس کے علاوہ یہاں پر تعمیرات کا ایک ایسا جال بنانا چاہتا ہے تاکہ مسلمانوں کے اس مقدس مقام کی شناخت کلی طور پرختم کر کے اسے یہودیوں کے عام استعمال کی جگہ بنایا جائے.
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اسرائیل نے مقام براق کو یہودیت میں تبدیل کرنے کا منصوبہ بہت پہلے تیار کیا تھا تاہم اس پر گذشتہ ماہ کی چوبیس تاریخ کو ہوئے فیصلے کے بعد جنگی بنیادوں پرکام شروع کر دیا گیا ہے.
دوسری طرف مقبوضہ بیت المقدس میں اسلامی اور مسیحی راہنماٶں نے اسرائیل کے تازہ منصوبوں پر شدید تشویش کااظہار کیا ہے. القدس کی اسلامی اور مسیحی کمیٹی کے چیئرمین ڈاکٹر حسن خاطر نے مسجد اقصیٰ کے خطیب اور مسیحی آرتھوڈوکس بیت المقدس میں راہنما عطاء اللہ حنا نے ایک مشترکہ پریس کانفرنس کی.
بیت المقدس میں ہوئی اس ہنگامی نیوز کانفرنس میں ڈاکٹر حسن خاطر نے کہا کہ “اسرائیل کی تازہ حکمت عملی، فلسطینی شہریوں کی بیت المقدس سے بے دخلی، ان کے مکانات کی مسماری، یہودی آباد کاری میں تیزی، فلسطینیوں کی جائیدادوںپر قبضے اور مقدس مقامات کو یہودیت میں تبدیل کرنے کےخطرناک منصوبوں سے واضح ہو گیا ہے کہ صہیونی ریاست بیت المقدس کے خلاف ایک کھلی جنگ پر اتر آئی ہے.
دوسری جانب مسجد اقصیٰ کے خطیب شیخ محمد حسین نے اسرائیل کی بیت المقدس میں مسلماوں کی تاریخی حیثیت کو ختم کرنے کے لیے جاری مہم پر صہیونی ریاست پر کڑی تنقید کی.ان کا کہنا تھا کہ بیت المقدس میں مکانات مسماری اور فلسطینیوں کے شہر بدری القدس کےشہریوں کی نسل کشی کے مترادف ہے.
اس موقع پرم سیحی راہنما مطران عطاء اللہ حنا نے بھی بیت المقدس میں اسلامی اور مسیحی مقدس مقامات کے خلاف جاری جارحیت کی شدید مذمت کی. انہوں نے کہا کہ فلسطین میں مسلمانوں اور عیسائیوں کے مقدس مقامات کا تحفظ ہم سب کی اجتماعی ذمہ داری ہے.