مصری سیکیورٹی ذرائع نے انکشاف کیا ہے کہ قاہرہ کے ایک عقوبت خانے میں غزہ کے رہائشی ایمن نوفل پر تفتیشی حکام کی جانب سے وحشیانہ تشدد کیا جا رہا ہے جس کے باعث قیدی کی حالت نہایت تشویشناک ہو چکی ہے۔
ایمن نوفل گذشتہ کئی برس سے مصری قید خانے میں پابند سلاسل ہے جسے ادنی درجے کےانسانی حقوق سے بھی محروم رکھا گیا ہے۔ مصری سیکیورٹی سروسز کے ایک اعلیٰ سطح کے اہلکار نے بدھ کے روز عرب خبررساں ایجنسی “قدس پریس” کو بتایا کہ “ایمن نوفل کا نام اور تصویر میڈیا میں آنے کے باعث مجھے اس کی اچھی طرح شناخت ہو گئی تھی، مصری تفتیش کاروں کی جانب سے تفتیش کے لیے لاتے اور لے جاتے کئی بار دیکھا، اس دوران ایمن کے ہاتھوں میں ہتھ کڑیاں اور پاؤں میں بھاری بھرکم بیڑیاں تھیں، چلنا اس کے لیے نہایت دشوار تھا۔”
مصری اہلکار نے کہا کہ ایمن نوفل کو گذشتہ ڈیڑھ برس سے قاہرہ کے “ابوزعبل” ٹارچر سیل میں رکھا گیا ہے، جہاں اسے اس نے کئی بار اسے دو مربع میٹر ایک ایسے بند کمرے میں دیکھا،چاروں طرف سے بند نہایت تنگ کمرہ جس میں نہ توکوئی روشن دان ہے اور نہ ہی ہوا کے داخلے کا کوئی راستہ ہے۔ قیدی کے پاس صرف ایک لوہے کا کوزہ ہے جسے وہ قضائے حاجت کے لیے استعمال کرتا ہے۔ vمصری اہلکارنے بتایا کہ “گذشتہ چھ ماہ کے دوران دو گز کے بند کمرے میں ایمن نوفل کے ساتھ ایک دوسرے فلسطینی قیدی جس کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ اس کا بھی حماس سے تعلق ہے کو رکھا گیا، جس سے جگہ مزید تنگ ہو گئی۔ اب ایمن نوفل اور دوسرا قیدی باری باری سوتے کیونکہ ایک ہی وقت میں دونوں کے لیے سونا یا لیٹنا ممکن نہیں تھا۔مصری اہلکار نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ” اس نے گذشتہ عرصے میں ایمن نوفل کو ایک اسٹیچر پر ٹارچر سیل کی رہداری میں دو تفتیش کاروں کو لاتے اور لے جاتے دیکھا، اذیت ناک تشدد کے بعد اس کے چلنا تو درکنا سیدھا کھڑا ہونا بھی ممکن نہیں تھا۔
جیل کے لباس میں ملبوس ایمن نوفل کی ظاہری حالت سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں تھا کہ مدت سے اس وہ نہ نہایا ہے اور نہ ہی اس کی داڑھی یا سر کے بال ترشوائے گئے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ٹارچر سیلوں میں زیرتفتیش قیدیوں کی صحت کی بگڑتی صورت حال کو منظرعام پر لانے پر پابندی ہے، جس سے قیدیوں کی جسمانی حالت کے بارے میں بیرونی دنیا کو کچھ بھی پتہ نہیں چل پاتا، اس سلسلے میں انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں خصوصا قیدیوں کے لیے کام کرنے والے ادارے”ریڈ کراس”کے نمائندوں کو جیلوں کا دورہ کرنے یا قیدیوں کے حالات سے آگاہی کے لیے آنے کی اجازت نہیں دی جاتی۔
اگر کسی انسانی حقوق کی تنظیم کی جانب سے قیدیوں کے بارے میں معلومات کے حصول پر اصرار کیا جائے توصرف مخصوص قیدیوں تک ان کی رسائی ممکن بنائی جاتی ہے، اس دوران زیادہ تشدد کا شکار قیدی زیرزمین قید خانوں میں منتقل کر دیے جاتے ہیں۔
انہوں نے انکشاف کیا کہ “ابو زعبل” جیل میں قیدیوں کو گندے پانی میں کھانا پکا کرفراہم کیا جاتا ہے، کھانے کی اشیا زیادہ تر باسی، ریت اور مٹی سے آلودہ ہوتی ہیں جوصحت بخش ہونے کے لیے مضر صحت ثابت ہوتی ہیں۔ فوجی کیفیرٹیریا سے اگر قیدی خود کچھ حاصل کرنا چاہیں پہلے تو انہیں وہاں جانے نہیں دیا جاتا اور اگر اجازت دے بھی دی جائے تو معمولی نوعیت کی کھانے کی اشیا کی قیتمیں قیدیوں کی پہنچ سے باہر ہوتی ہیں۔
یہ ساری صورت حال مریض قیدیوں کے لیے نہایت ہی تشویشناک ہے۔ مصری افسر کا کہنا تھا کہ قاہرہ میں قائم “ابوزعبل”، المرج، عرب برج اور قاہرہ سیکیورٹی سینٹر کے ناموں سے مشہور جیلوں میں درجنوں فلسطینی زیرحراست ہیں، جن پرمصری کی اعلیٰ کمان کی طرف سے اذیت ناک تشدد کے احکامات دیے گئٓے ہیں، خاص طور پر جب سے حماس نے مصر کی طرف سے تیار کردہ مفاہمتی مسودے پر دستخط کرنے سے انکار کیا اس کے بعد سے حماس سے وابستہ قیدیوں کو اذیت ناک سزائیں دینے کے احکامات کیے گئے ہیں۔