فلسطینی پولیس آفیسر ابراہیم معروف نے کہا ہے کہ اسے مصر کی جیل میں ایک ہفتے کی اسیری کے دوران شدید تعذیب کا نشانہ بنایا گیا۔ اسے بے لباس کرکے باندھ دیا جاتا تھا اور پھر بجلی کے کرنٹ دئیے جاتے تھے ۔ مصری پولیس کا اصرار تھا کہ وہ انہیں قسام رہنماؤں اور اسرائیلی فوجی گیلاد شالیت جو مجاہدین کی تحویل میں ہے کے ٹھکانے کے بارے میںمعلومات فراہم کرے۔ ان باتوں کا انکشاف ابراہیم معروف نے اپنے ایک بیان میں کیا جو جمعہ کو ایک فلسطینی ویب سائٹ “فلسطین ٹوڈے” پر شائع ہوا۔ ابراہیم نے اپنے بیان میں مزید کہا کہ وہ 5 جنوری کو اپنے بیماروالد کی اوپن ہارٹ سرجری کیلئےغزہ سے مصر میں داخل ہوئے۔27 جنوری کو وہ اپنے والد کا علاج کر کے غزہ مصری سرحد پر واپس پہنچے۔ وہاں ان کے پاسپورٹ چیک کئے گئے۔ میرے والد صاحب اور میڈیکل ٹیم کو غزہ وادی جانے کی اجازت دی گئی تاہم مجھے بتایا گیاکہ آپ کو کچھ دیر روکنا پڑے گا کیونکہ بقول انکے انہیں میرے نام میں کچھ ابہام نظر آرہا تھا۔ ابراہیم نے کہا کہ اسے یہاں سے رفح کی پولیس چیک پوائنٹ پر لیا گیا جہاں پانچ گھنٹے تک اس سے کوئی گفتگو نہیں کی گئی۔ اس کے بعد اسے آنکھوں پر پٹیاں باندھ کے العریش لیا گیا جہاں رات بھر رکھنے کے باوجود اسے کوئی سوال نہیں پو چھا گیا۔ فلسطینی پولیس آفیسر نے کہا کہ 28جنوری ،صبح دس بجے کئی فوجی سپاہی آئے اور اسکی آنکھوں پر دوبارہ پٹی با ندھ کر اسے اپنے تفتیشی مرکز لے گئے جہاں اس پر الزام عائد کیا گیا کہ وہ حماس اور القسام کا کارکن ہے اور اس نے مسلح جوانوں کا ایک گروپ تشکیل دیا ہے جسے مصر میں داخل ہو کر فتح سے وابستہ لوگوں کو قتل کرنے کا مشن سونپا گیا ہے۔اس نے ان الزامات کو مسترد کیا۔ اس پر اسے بے لباس کیا گیا۔ اسکے ہاتھ اور پیر باندھے گئے اورسیمنٹ کے فرش پر لٹایا گیا۔ اس پر فولادی رولر چلائے گئے اور اسے الیکٹرک شاکس دئیے گئے اس دوران لاتوں اور گھونسوں کی بارش بھی ساتھ ساتھ ہوتی رہی۔ اس تشدد کے باوجود جب ابراہیم معروف نے ان الزامات کو ماننے سے انکار کیا تو اسے اس سیڑھی کے جنگلے کے ساتھ باندھ دیا گیا جس سیڑھی کو ان کے آفیسران استعمال کرتے تھے اور وہ آتے جاتے اسکو گالیاں دیتے تھے۔ اسے صبح دو بجے تک اسی طرح رکھا گیا۔ ابراہیم نے انکشاف کیا کہ اس نے عباس انتظامیہ کے چند لوگوں کو بھی دیکھا جو اس سارے عمل کے دوران مصری انٹیلی جنس کو تعاون فراہم کررہے تھے۔ فلسطینی پولیس آفیسر نے کہا کہ اسے سب سے زیادہ پوچھ تاچھ اسرائیلی محبوس فوجی اور القسام رہنمائوں کے ٹھکانوں بارے میں کی گئی۔ محمود بی عبدالحلیم نامی مصری پولیس آفیسر نے معروف کو یہ دھمکی بھی دی کہ وہ صرف 15سپاہیوں کے ساتھ اسے،حماس اور القسام کو ختم کرسکتا ہے۔فلسطینی پولیس آفیسر کا کہنا ہے کہ اس نے دوران اسیری کئی فلسطینی قیدیوں کو دیکھا جن کی خطاء صرف یہ تھی کہ وہ مصری غزہ سرحد پر سرنگوں کے ذریعے محاصرہ زدہ غزہ پٹی کے اندر غذائی اجناس پہنچانے کا کام کرتے تھے۔