عبرانی ذرائع ابلاغ نے پورے مقبوضہ فلسطین بالخصوص القدس پر پھیلے یہودی آثار قدیمہ کی مرمت اور توسیع کے ایک اسرائیلی منصوبے کا انکشاف کیا ہے۔ متعلقہ صہیونی وزارت نے اسرائیلی ریاست کے لیے اہمیت کے پیش نظر 12 تاریخی یہودی مقامات میں توسیع کے منصوبے کی منظوری دے دی ہے۔ کثیر الاشاعت عبرانی اخبار نے اپنی منگل کی اشاعت میں کہا ہے کہ ’’اسرائیل آثار قدیمہ کے تحفظ‘‘ کی وزراتی کمیٹی اس منصوبے کے ساتھ ساتھ بحیریہ طبریہ کے قریبی علاقے ’’کبٹس ماگن‘‘ میں ’’اسرائیلی موسیقی کے قومی ورثے کی آرکائیو‘‘، سائٹ آفس اور ’’قومی آرکائیو‘‘ کے منصوبے کی منظوری بھی دی ہے۔ اخبار نے بتایا کہ اس سے قبل بھی صہیونی کمیٹی نے مقبوضہ فلسطین میں موجود 16 یہودی آثار قدیمہ میں ترمیم اور بحالی کے ایک منصوبے کی منظوری دی تھی، تاہم منصوبے کے دوسرے مرحلے کے لیے بجٹ کی منظوری ابھی باقی ہے۔ اخبار کے مطابق اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاھو کے دفتر کی جانب سے سے ان یہودی مقدس مقامات میں ترمیم کے لیے 14 ملین ڈالرز مختص کیے ہیں۔ جبکہ دوسری طرف بہت سے معاونین کی جانب سے 28 ملین ڈالرز کے اس منصوبے کے لیے 12 ملین ڈالرز کی معاونت کی جائے گی۔ منصوبے پر کام کے دوران اسرائیل میں قائم قدیم ترین یہودی آبادیوں کے آثار کی مرمت، توسیع اور ترمیم کی جائے گی۔ ان آثار میں مقبوضہ گولان کی پہاڑیوں پر ختم ہوجانے والی ’’جملا‘‘، ’’ام القناطیر‘‘ کی آبادیاں بھی شامل ہیں۔ اسی طرح ’’تل عراد‘‘ میں ’’یہودی ھیکل‘‘ کی دوبارہ تعمیر، نیز القدس کی ’’نحلوت‘‘ اور ’’مغارات الحشمونئیم‘‘ نامی کالونیوں میں ’’عدس‘‘ نامی کنیسے جیسی مذہبی عبادت گاہ کو بھی بحال کیا جائے گا۔ منصوبے کے مطابق تقریبا ساڑھے چار ملین ڈالرز جنوبی القدس میں واقع ’’ھیرودیس‘‘ محل کی ترمیم پر بھی خرچ کیے جائیں گے۔ اپنے عزائم پر عمل کرتے ہوئے اسرائیلی حکومت اس مقام کو سیاحتی مقام میں تبدیل کرنا چاہتی ہے۔