السلام علیم عزیز و محترم علمائے کرام و مفتیان عظام و خطباء کرام !
جیسا کہ آپ بخوبی جانتے ہیں کہ فلسطین انبیاء علیہم السلام کی سرزمین ہے اور اسی سرزمین پر واقع القدس شریف جو مسلمانوں کا قبلہ اوّل رہا ہے اور شب معراج قرآن کی آیات کی واضح دلیل کے مطابق پیغمبر اکرم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو مسجد حرام سے مسجد اقصی لایا گیا جہاں آپ (ص) نے انبیائے کرام کی ارواح مقدسہ کی امامت فرمائی۔
سرزمین مقدس فلسطین تقریباً ایک سو سال سے صہیونی غاصبوں کی سازشوں کا شکار ہے اور سنہ ۱۹۴۸ سے باقاعدہ اس سرزمین مقدس پر صہیونیوں نے اسرائیل نام کی ریاست قائم کی ہے جو عالمی قوانین، انسانی حقوق اور عالمی سیاسی اصولوں کے بر خلاف ہے لہٰذا فلسطینی عوام اس ریاست کو جعلی ریاست قرار دیتے ہیں اور یہی حق ہے کہ اسرائیل غاصب صہیونیوں کی جعلی ریاست ہے اور فلسطین فلسطینیوں کا وطن ہے۔
سرزمین مقدس فلسطین پر سات دہائیوں سے مسلسل صہیونی مظالم جاری ہے لیکن فلسطینی عوام نے اس ظلم و ستم کے مقابلہ میں کبھی سر تسلیم خم نہیں کیا اور مزاحمت کے راستے کو پتھروں، غلیلوں سے بڑھا کر اب راکٹ اور میزائلوں سمیت ڈرون ٹیکنالوجی تک پہنچا دیا ہے یہئ فلسطینی عوام کی مزاحمت و استقامت ہے جو اسلامی بیداری کی دلیل ہے اور اسی استقامت نے آج اسرائیل جیسی خونخوار اور دنیا کے سامنے ناقابل تسخیر سمجھی جانے والی صہیونیوں کی جعلی ریاست اسرائیل کو دفاعی حصار میں دھکیل دیا ہے جس کی واضح مثالیں اسرائیل کا سیاسی اور سیکورٹی بحران ہے جو روز بروز بڑھتا چلا جا رہا ہے اور اسرائیل اپنے نظریہ کے مطابق آگے بڑھنے کی بجائے عقب نشینی پر مجبور ہے اور اپنے گرد دیواروں کے بعد دیواریں تعمیر کر رہا ہے۔
اسرائیل جس جنگ کو غرب ایشیاء (مشرق وسطی) سے شروع کر کے جنوبی ایشیاء تک لانا چاہتا تھا آج اپنے تمام ارادوں میں ناکام ہوا ہے اور جنگ اس کی اپنی جعلی سرحدوں تک یعنی مقبوضہ فلسطین تک پہنچ چکی ہے۔
اسرائیل کی ان تمام تر ناکامیوں کا سرچشمہ فلسطینی مزاحمت ہے جو کہ غزہ، مغربی کنارہ، لبنان اور شام میں جولان کی پہاڑیوں کی طرف سے ہے ۔
آج اسرائیل اپنی کمزوریوں کو چھپانے کی خاطر چند عرب ریاستوں کے ساتھ تعلقات قائم کر کے خود کو طاقتور ثابت کرنا چاہتا ہے لیکن ناکام ہو رہا ہے۔
ہماری آپ سے اپیل ہے کہ بطور انسان، مسلمان اور پاکستانی ہونے کی حیثیت سے فلسطین کے مظلوم لیکن با استقامت عوام کی پشت پناہی کریں۔
فلسطین کا مسئلہ تمام مذاہب و مسالک سے بالا تر ایک عالمگیر انسانی مسئلہ ہے جو دنیا کے تمام مسائل کی فہرست میں اولی ہے۔
بطور مسلمان ، قدس شریف پر صہیونی تسلط قابل قبول نہیں، فلسطینی مسلمانوں کا قتل عام ہر گز قبول نہیں، شعائر اللہ کا دفاع ہمارا فریضہ ہے، مسلمان ایک جسد واحد کی طرح ہے ان سب کی روشنی میں ہمارا فریضہ ہے کہ مظلوموں کی مدد کریں اور وقت کے ظالم فرعونوں امریکہ و اسرائیل کے خلاف صدائے احتجاج بلند کریں
بطور پاکستانی، بانی پاکستان قائد اعظم محمدُعلی جناح نے اسرائیل کی ریاست کے قیام کو ناجائز قرار دیا اور اسے مغرب کی ناجائز اولاد قرار دیا۔ ۲۳ مارچ سنہ ۱۹۴۰کو قرارداد پاکستان کے ساتھ قرارداد فلسطین پیش کی اور واضح موقف اپنایا کہ برصغیر کے مسلمان فلسطین پر صہیونی قبضہ ہر خاموش نہیں بیٹھیں گے۔ علامہ اقبال نے کہا مجھے اگر حکومت انگلستان جیل بھی بھیج دے تو میں فلسطین کی حمایت سے دستبردار نہیں ہوں گا۔
پاکستانی ہونے کی حیثیت سے ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم بانیان پاکستان کے موقف کو زندہ رکھیں۔
اگر چہ آج کل کچھ مفاد پرست ٹولہ پاکستان میں اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کی ناکام کوششوں میں مصروف عمل ہے ہمیں اس سازشی ٹولہ کو بے نقاب کرنا ہو گا۔
اسرائیل کے ساتھ کسی قسم کے تعلقات قائم کرنا بانیان پاکستان کے افکار و نظریات کے ساتھ سنگین غداری ہے۔
اسرائیل جسے قائد اعظم نے تسلیم کرنےسے انکار کیا اس کے ساتھ دوستی قائم کرنے کی بات کرنا واضح طور پر آئین پاکستان اور نظریہ پاکستان سے انحراف اور غداری ہے۔
اگر کچھ غدار وطن ٹولہ کی فرمائش پر اسرائیل سے دوستی کر لیں تو پھر مسئلہ کشمیر پر ہمیں بات کرنے کا کوئی حق حاصل ہے ؟ حالانکہ کشمیر کو قائد اعظم محمد علی جناح نے پاکستان کی شہ رگ قرار دیا ہے۔
اسرائیل سے تعلقات کا مطلب ہے کہ اسرائیل نے آج تک فلسطین میں جو قتل و بربریت اور انسانی حقوق کی پامالیاں انجام دی ہیں وہ سب جائز ہیں اور پھر اسی قانون سے کشمیر میں بھارت کی ریاستی دہشتگردی کی مذمت بھی بے جا ہو جائے گے۔
اگر چہ آج کل کچھ مفاد پرست ٹولہ پاکستان میں اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کی ناکام کوششوں میں مصروف عمل ہے ہمیں اس سازشی ٹولہ کو بے نقاب کرنا ہو گا۔
اسرائیل کے ساتھ کسی قسم کے تعلقات قائم کرنا بانیان پاکستان کے افکار و نظریات کے ساتھ سنگین غداری ہے۔
۔