مغربی کنارے میں فلسطینی مجلس قانون ساز کے اراکین نے صہیونی حکومت کی طرف سے اسرائیلی شہریت کے حصول کے لیے صہیونی ریاست کو ایک جمہوری یہودی ریاست تسلیم کرنے سے متعلق قانون کی شدید مذمت کی ہے. فلسطینی اراکین پارلیمان نے انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں اور عالمی برداری سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اسرائیلی کابینہ کا منظور کردہ نسل پرستانہ قانون رکوانے کے لیے اسرائیل پر دباٶ ڈالیں. خیال رہے کہ اتوار کو اسرائیلی کابینہ کے اجلاس میں ایک نئے قانونی بل کی منظوری دی گئی تھی جس کے بموجب اسرائیلی شہریت کے حصول کے خواہش مند ہر شخص کو اسرائیل کو بطور یہودی ریاست تسلیم کرنے کا حلف اٹھانا ہو گا. اس قانون کے تحت اسرائیل میں موجود تمام فلسطینی شہریوں کو بھی یہ حلف اٹھانا ہو گا، بصورت دیگران کی شہریت منسوخ کر دی جائے گی. اسرائیلی کایبنہ کے فیصلے کے ردعمل میں فلسطینی مجلس قانون ساز کی جانب سے جاری ایک مشترکہ بیان میں کہا گیا ہےکہ اسرائیل کے اس نئے قانون کا مقصد صہیونی نسل پرستی کو فروغ دینا ہے. یہ قانون منظور ہو گیا تواس سےفلسطین کے سنہ 1948ء کے دوران اسرائیل کے قبضے میں چلےجانے والے علاقوں کے فلسطینی باشندوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے. بیان میں کہا گیا ہے کہ اسرائیل اس ظالمانہ اور نسل پرستانہ قانون کی آڑ میں مقبوضہ فلسطین کے شہریوں کو انہیں وہاں سے نکل جانے پرمجبور کرنا چاہتا ہے.فلسطینی اراکین پارلیمان نے اسرائیل کی طرف سے منظور کردہ نئے قانون کو فلسطینی ریاست کی اسرائیل کے ساتھ جاری نام نہاد امن مذاکرات کا ثمر قرار دیا ہے. اراکین قانون ساز کونسل کا کہنا ہے کہ فلسطینی اتھارٹی کو صرف اسرائیل سےمذاکرات کی فکر کھائے جا رہی ہے جبکہ قابض صہیونی ریاست مذاکرات کی آڑ میں فلسطینیوں کے آخری حقوق بھی سلب کر رہی ہے. انہوں نے فلسطینی اتھارٹی سےمطالبہ کیا کہ وہ اسرائیل کے ساتھ نام نہاد راست مذاکرات کا ڈھونک مکمل طور پر ختم کریں اور تمام تر توجہ صہیونی جنگی جرائم اور ظالمانہ قوانین کو روکنے پر مرکوز کریں.