مقبوضہ اندرون فلسطین۔ مرکز اطلاعات فلسطین+-
نام نہاد اسرائیلی خارجہ امور اور سلامتی کمیٹی اس ہفتے کنیسٹ میں ایک بل پیش کرنے والی ہے جو سنہ 1948ء کے مقبوضہ فلسطینی علاقوں کے اندر قیدیوں سے عوفر ملٹری جیل کے خصوصی حصوں میں پوچھ گچھ کی اجازت دے گا۔
مذکورہ مسودہ قانون کےاندرونی فلسطینی علاقوں کےباشندوں پر سنگین اثرات مرتب ہوں گے۔ اسرائیلی حکام گذشتہ کچھ عرصے سے اندرون فلسطین کے باشندوں کے خلاف زیادہ سے زیادہ انتقامی پالیسیوں پرعمل پیرا ہیں۔ خاص طور پرگذشتہ برس غزہ کی پٹی اور بیت المقدس پر اسرائیلی فوج کی چڑھائی کے بعد’الکرامہ تحریک‘ کے بعد اندرون فلسطین کے شہریوں کے خلاف پرتشدد حربوں میں اضافہ ہوا۔
مسودہ قانون میں کہا گیا ہے کہ اندرون فلسطین سے تعلق رکھنے والے فلسطینی قیدیوں سے تفتیش اور پوچھ گچھ “سیکیورٹی الزامات اور شکوک و شبہات کی بنیاد پر” مرکزی مقبوضہ مغربی کنارے میں رام اللہ کے مغرب میں واقع عوفر ملٹری جیل کے ایک خصوصی حصے میں کی جائے گی۔ خیال رہے کہ یہ جیل سنہ 1948ء کے مقبوضہ علاقوں سے باہر کی زمینوں پر قائم ہے۔
خطرناک نتائج
فلسطین میں انسانی حقوق کے ادارے ’میزان فاؤنڈیشن‘ کے ڈائریکٹر وکیل عمر خمایسی کہتے ہیں مذکورہ قانون کا مسودہ اپنے نتائج اور مقاصد کے لحاظ سے خطرناک ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ قانون کے مسودے کے مطابق قابض ریاست کی انٹیلی جنس سروس سیکیورٹی کی خلاف ورزیوں اور شکوک و شبہات کی تحقیقات کی ذمہ دار ہے۔
انہوں نے کہا کہ قابض انٹیلی جنس کے پاس اسرائیلی قانون کے مطابق کئی معروف اور مخصوص حراستی سہولیات موجود ہیں لیکن نئے قانون کے تحت وہ 48 سرزمین کے اندر سے شہریوں سے پوچھ گچھ کرنے کے لیے قیدیوں کو عوفر جیل کے کسی خفیہ سیل میں لے جائیں گے جہاں تفتیش کے دوران ان سے غیرانسانی سلوک اور تشدد کیا جائے گا۔
خمایسی کے مطابق مسودہ قانون میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ تفتیش نئے سیکشن میں، مہاجرین اور تارکین وطن کے ساتھ کسی ایسے شخص سے بھی ہو گی جو دشمن ملک سے ہو۔
ان کے نقطہ نظر سے قابض حکام چاہتے ہیں مسودہ قانون کے نفاذ کے پیچھے سنہ 48 علاقوں سے حراست میں لیے گئے افراد کو ان سے باہر منتقل کرنا، اور سرحدوں سے باہر مختلف حالات میں ان سے پوچھ گچھ کرنا ہے۔
انہوں نے کہا کہ عوفر ملٹری جیل مقبوضہ مغربی کنارے کے علاقے میں قائم کی گئی ہے۔ یہ جیل سنہ 1967ء کے مقبوضہ علاقوں میں قائم ہے جوکہ بین الاقوامی قوانین کے تحت غیرقانونی ہے۔