فلسطین میں علماء کے متحدہ محاز نے مغربی کنارے میں یہودی آبادکاروں کے ہاتھوں مسجد کو ندرآتش کرنے اور قرآن کریم کے نسخوں کی شہادت پر گہرے دکھ کا اظہار کرتے ہوئے اسے قابض اسرائیل کی ریاستی دہشت گردی کا حصہ قرار دیا ہے. علماء کا کہنا ہے کہ اسرائیل یہودیوں کے اس گھناٶنے جرم میں برابر کا شریک ہے فلسطین میں موجود تمام اسلامی مقدس مقامات کے تحفظ کے لیے تحریک انتفاضہ شروع کرنے کی ضرورت ہے. غزہ میں علماء رابطہ بورڈ کی جانب سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ یہودیوں کا مکروہ چہرہ بہت پہلے فلسطینی عوام کے سامنے آ چکا ہے اور آج مغربی کنارے میں بیت لحم کے فجار علاقے میں مسجد کی شہادت اور قرآن کریم کے نسخوں کو نذرآتش کرنے اب یہودیوں کی اسلام اور فلسطین دشمنی میں کوئی کمی نہیں رہ گئی علماء نے فلسطین بھر کےتمام شہریوں سے مطالبہ کیا کہ وہ مقدس مقامات، مساجد اور قرآن کریم کے تحفظ کے لیے اٹھ کھڑے ہوں اور یہودیوں کی ہرناپاک سازش کو ناکام بنا دیں. علماء کا کہنا تھا کہ اسرائیل کی طرف سے یہودی بستیوں کی تعمیر کے لیے انتہا پسند یہودیوں کو کھلی چھٹی دینے کے بعد اب مسلمانوں کی املاک اور مقدس مقامات پر حملے کوئی انوکھی بات نہیں، فلسطینی اتھارٹی کے نام نہاد مذاکرات کا یہی نتیجہ برآمد ہونا تھا. علماء بورڈ نےفلسطینی صدر محمود عباس اور غیرآئینی فتح کی حکومت پر کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ مساجد اور قرآن کریم کے نسخوں کی شہادت کے بعد بھی فلسطینی اتھارٹی کی خاموشی نہایت افسوسناک ہے. ایسے لگتا ہے کہ قابض صہیونی دشمن اور محمود عباس ایک طے شدہ اور مشترکہ ایجنڈے کے تحت اسلامی مقدسات پر حملے کر رہے ہیں. بیان میں کہا گیا ہے کہ یہودی آبادکاروں کی طرف سے فلسطین میں مقدس مقامات کی بے حرمتی میں تواتر کے ساتھ اضافہ ہو رہا ہے جبکہ محمود عباس اور فلسطینی اتھارٹی کی طرف سے ابھی تک اس پر کوئی دو ٹوک موقف سامنے نہیں آیا.