قومی اعلی اختیاراتی کمیٹی برائے نصرت اسیران نے القدس سے تعلق رکھنے والی خاتون قیدی شیرین طارق عیساوی کی مدت حراست میں توسیع اور الزام ثابت نہ ہونے کے باوجود ان کی رہائی سے اسرائیلی انکار کوانتقامی کارروائی قرار دیا ہے۔ کمیٹی نے ذرائع ابلاغ کو دیے گئے اپنے بیان میں کہا ہے کہ 29 سالہ قیدی عیساوی اسیران کی رہائی کے لیے کام کرنے والی سرگرم کارکن ہیں، اسی طرح وہ بچوں کی حفاظت کی عالمی مہم کے لیے وکالت کے فرائض سرانجام دیتی ہیں، انہوں نے قیدی بچوں کے معاملات میں اسپیشلائزیشن کر رکھی ہے۔ وہ عبداللہ برغوثی، ابراہیم حامد، ناصر عویس جیسے اسیر قیدی رہنما کے فائلوں پر کام کر چکی ہیں۔ اسی طرح انہوں نے اسرائیلی جیلوں میں قید اردن کے اسیران کے معاملے پر بھی کام کیا ہے۔ کمیٹی نے بیان کیا کہ اسرائیلی فوج نے انہیں شیخ سعد کالونی کے قریب گھر واپس لوٹتے ہوئے گرفتار کیا گیا، اس دوران ان کے گھر پر بھی قبضہ کر لیا گیا اور ان کے کمرے کی تلاشی لی گئی، انکے کمپیوٹر، سرکاری کاغذات اور موبائل فون پر قبضہ کر لیا گیا۔ ان پر ’’ دہشت گرد تنظیم کے ساتھ روابط کا الزام لگایا گیا۔ کمیٹی نے کہا کہ اسرائیلی خفیہ ایجنسیوں کی جانب سے اسیرہ پر کسی قسم کا الزام ثابت کرنے میں ناکامی کے باوجود بھی اسرائیل ان کو رہا کرنے سے مسلسل انکار کیے جا رہا ہے۔ ان کو مسلسل دسویں مرتبہ گرفتار کیا گیا ہے۔ کمیٹی نے واضح کیا کہ پچھلے ماہ عیساوی کی گرفتاری سے قبل اسرائیلی انتظامیہ نے ان کی اسیران سے ملاقات پر پابندی عائد کر دی تھی جس سے خاتون وکیل سے جیل انتظامیہ کی نفرت بخوبی عیاں ہوتی ہے بعد ازاں انہیں گرفتار کر لیا گیا۔ کمیٹی نے عالمی انسانی حقوق کی تنظیموں سے فی الفور مداخلت کی اپیل کی۔ اور خاتون وکیل کی فی الفور رہائی کا مطالبہ کیا۔