ایرانی پارلیمنٹ کے سپیکر علی لاریجانی نے کہا ہے کہ ان کے ملک کو اس بات پر فخر ہے کہ وہ خطے میں لبنانی اور فلسطینی مزاحمتی تحریکوں کی مدد کر رہا ہے کیونکہ پر امن ذرائع کی ناکامی کے بعد مزاحمت ہی وہ واحد ذریعہ ہے جس کے ذریعے قابض فورسز کا مقابلہ کیا جاسکتا ہے۔
ان خیالات کا اظہا ر ایرانی سپیکر نے منگل کے روز ایک کانفرنس بعنوان “غزہ ۔۔مزاحمت کی علامت “کے دوران خطاب کرتے ہوئے کیا۔ کانفرنس کا انعقاد ایسوسی ایشن برائے دفاع فلسطین نے کیا تھا اور اس میں حماس کے نمائندے اور ایرانی حکام نے شرکت کی۔
مرکز اطلاعات فلسطین کے نمائندے کے مطابق ایرانی سپیکر نے اپنے خطاب میں کہا کہ تحریک مزاحمت نے 33دنوں کے لبنان جنگ اور وادی غزہ کی جنگ میں کامیابی کے جھنڈے گاڑھ دئیے۔ انہوں نے ہر سال جنوری کی 19کویوم غزہ کے طور پر منانے کا اعلان کیا۔کئی ممالک کو کئی مواقع پر غزہ میں اسرائیلی جارحیت کے خلاف اقوام متحدہ میں آواز اٹھانے سے روکتے رہے۔انہوں نے کہا کہ 22 دنوں تک کسی نے ا نسانیت اور نہ ہی انسانی حقوق کی بات کی۔
ایرانی سپیکر نے اس نقطے کو بھی بھر پور طریقے پر ابھارا کہ ہم نے نئے امریکی صدر کو بھی بلند بانگ دعوے کرتے دیکھا کہ ان کی سابقہ پیش روئوں کی پالیسی کے مقابلے میں مختلف پالیسی ہوگی۔اور وہ ان کی پالیسیوں کو پسندیدہ نہیں سمجھتا۔ ایرانی سپیکر نے صدر امریکا بارک اوباما کے دورہ ترکی اور مصر کے حوالے سے کہا کہ انہوں نے ترکی کی پارلیمنٹ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ وہ مسلمانوںکو ان کے حقوق دینا چاہتا ہے اور وہ ان کے ساتھ معاملات نبھانے میں ایک نئی حکمت عملی وضع کرے گا۔
اسی طرح قاہرہ میں اوباما نے کہا کہ وہ اسلام کے متعلق جانکاری رکھتا ہے اور وہ فلسطینیوں کو ان کے حقوق دینا چاہتا ہے ۔لیکن کتی شرم کی بات ہے کہ ابھی بھی غزہ کی ناکہ بندی جاری ہے اور صدر امریکہ نے ابھی تک اس معاملے میں کوئی کردار ادا نہیں کیا۔