فلسطینی علماء کی رابطہ کمیٹی نے خبردار کیا ہے کہ مسلمانوں پر تسلط حاصل کرنے کے خواہشمند دشمن کے لیے اپنے مسلمان بھائیوں کی جاسوسی کرنا اسلامی شریعت میں انتہائی قبیح فعل اور کافروں سے دوستی بڑھانے کی ایسی صورت ہے جو انسان کو دائرہ ایمان سے نکال کر کفر تک لے جاتی ہے۔ علماء نے کہا کہ جو مسلمان بھی جاسوسی کر کے کافروں کے ساتھ دوستی اور تعاون کرنے کی اس صورت پر مرے گا اس کی موت کفر پر موت شمار ہو گی، ایسے شخص کا غسل و کفن، اسکی نماز جنازہ اور اسے مسلمانوں کے قبرستان میں دفنانا جائز نہیں۔ علماء رابطہ کمیٹی نے ذرائع ابلاغ کو جاری کیے گئے اپنے ایک بیان میں کہا ہے بہت سی قرآنی آیات اور احادیث مبارکہ دشمنوں کے لیے مسلمانوں کی جاسوسی کرنے والے کا حکم واضح کرتی ہیں۔ کمیٹی نے واضح کیا کہ جو شخص اسرائیل کے لیے جاسوسی کرتے ہوئے فوت ہوا وہ کفر پر مارا گیا۔ اس کو غسل دیا جائے، کفن دیا جانئے اور نہ ہی اس کا جنازہ پڑھا جائے، ایسے جاسوسوں کو مسلمانوں کے قبرستان میں دفنانا بھی جائز نہیں، اس موقع پر علماء نے زور دے کر کہا کہ مسملمانوں کی صفوں کی مضبوطی اور اسلامی معاشرے کو دشمنوں کے شر اور غداری سے بچانے کے لیے اسرائیل اور اس کے معاونین کے ساتھ مزاحمت کرنا ہر فلسطینی مسلمان کا شرعی فریضہ ہے۔ علماء نے خبردار کیا کہ دشمنوں کے لیے جاسوسی کرنے کی وجہ سے جہاد اور مزاحمت کے راز افشا ہونے کے ساتھ ساتھ جہاد کو شدید نقصان پہنچتا ہے جس سے دشمنوں کا رعب بڑھ جاتا ہے، مزید اس سے مسلمانوں کی غلطیاں اور برائیاں بھی کھل جاتی ہیں۔ جاسوسی کی نتیجے میں معصوم جانوں کا ضیاع ہوتا ہے اور اللہ تعالی نے واضح طور پر فرمایا ہے ’’کہ اللہ کی حرام کردہ جانوں کو ناحق قتل نہ کرو، اللہ تمہیں یہی نصیحت کرتا ہے شاید کہ تمہیں سمجھ آ جائے۔‘‘ دریں اثنا علماء نے جاسوسی کے خلاف بڑے پیمانے پر مہم چلانے پر وزارت داخلہ کی کاوشوں کو خراج تحسین پیش کیا۔ انہوں نے کہا کہ جاسوسی کے قبیح فعل میں مبتلا لوگوں کے لیے موت سے قبل توبہ کے دروازے ہمیشہ کے لیے کھلے ہوئے ہیں۔ علماء کرام نے داخلی محاذ پر کام جاری رکھنے پر زور دیا اور کہا کہ اس فلسطینی مسلمان معاشرے کی قدر ومنزلت بڑھانے کے لیے اندرونی محاذ کی حفاظت کرنا ہو گی۔ انہوں نے مجاہدین اور اگلے محاذوں پر لڑنے والوں کی عزم وہمت توڑنے کو ممنوع قرار دیا، انہوں نے کہا کہ مجاہدین ہی فلسطین کی پاکیزہ زمین کے اصل محافظ ہیں۔ علماء کا یہ بھی کہنا تھا یہ سب کچھ محض اخلاص کے ساتھ حاصل نہیں ہو گا، اس کے لیے آگاہی پیدا کرنے کی مہم شروع کرنے، توجہ مبذول کرانے، خطرات سے آگاہ کرنے اور انتباہ جاری کرنے کی سرگرمیاں بھی شروع کرنا ہونگیں اور سب سے بڑھ دین کے دشمنوں کو مومنوں پر غلبہ دینے کے لیے ان کے ساتھ موالاۃ اور دوستیاں لگانے والوں کو واضح طور پر خود سے جدا کرنا ہو گا۔‘‘