اسلامی تحریک مزاحمت (حماس) کے سیاسی شعبے کے سربراہ خالد مشعل نے عرب ممالک پر زور دیا ہے کہ وہ اسرائیل کے ساتھ جاری نام نہاد امن بات چیت اور امن عمل روک دیں۔ انہوں نے کہا کہ محمود عباس کی جانب سے آئندہ سال کے صدارتی انتخابات میں حصہ نہ لینے کے اعلان سے امریکا کے لیے کوئی مشکل پیدا نہیں کی جا سکتی، مسائل کا اصل حل فلسطینی عوام کے مطالبات اور قومی امنگوں کی جانب پلٹنے میں ہے۔ دمشق میں یرموک مہاجر کیمپ میں جہاد اسلامی کے زیرانتظام منعقدہ ایک سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے خالد مشعل کا کہنا تھا کہ اسرائیل اپنے موقف میں کوئی تبدیلی نہیں لائے گا البتہ وہی اپنی چالیں اور مکرو فریب کے جال بدلتا رہے گا۔ امریکا کو پالیسی بدلنے پرمجبور کیا جا سکتا ہے، حقیقی تبدیلی عرب ممالک اور ہماری جانب سے شروع ہونی چاہیے۔ عرب ممالک اور فلسطینی اتھارٹی کی جانب سے اسرائیل کے ساتھ امن بات چیت میں مسلسل ناکامی کے کئی تجربات ہو چکے، اور بہت سا وقت ضائع کیا جا چکا۔ عرب ممالک کو اب سبق حاصل کرلینا چاہے کہ انہوں نے اسرائیل کے ساتھ کیا کیا اور اسرائیل نے انہیں کیا دیا۔ اب ہمیں یہ یقین کرلینا چاہیے کہ اسرائیل امن کا دشمن ہے۔ اگر وہ امن پر یقین رکھتا تو یہ صورت حال پیدا نہ ہوتی۔ انہوں نے کہا کہ جب ہم دنیا میں تبدیلی کے اثرات کی بات کرتے ہیں تو ایسے میں ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ ہماری کونسی ایسی پالیسیاں ہیں جن میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے۔ وقت نے ثابت کیا ہے کہ اسرائیل کے ساتھ امن عمل کے کوئی مثبت نتائج برآمد نہیں ہوئے۔ عرب ممالک اسرائیل کے ساتھ اپنے تعلقات پر نظرثانی کریں، اور امن عمل میں ناکامی کا کھل کر اسرائیل، امریکا اور چارکنی کواٹریٹ کو ٓذمہ دار ٹھہرائیں، ہمیں تمام معاملات کے لیے کھلی پالیسی ترتیب دینا ہوگی، اگر عرب ممالک تبدیلی لانا چاہتے ہیں توانہیں ایک دوسرے کو برداشت کرنے کے ساتھ ساتھ دنیا کی دیگر قوموں کے لیے اپنے دروازے کھولنا ہوں گے۔ خالد مشعل نے کہا کہ محمود عباس کی جانب سے استعفے کا اعلان امریکا کے لیے کوئی آزمائش نہیں بنے گا کیوں کہ ان کے استعفے کے اعلان سے امریکا کو کوئی پرواہ نہیں، ہم نے خود امریکی وزیرخارجہ ہیلری کلنٹن کو محمود عباس کے استعفے سے متعلق بات چیت کرتے سنا ہے، ان کے تاثرات یہی بتا رہے تھے کہ محمود عباس کے فیصلے سے انہیں کوئی پریشانی نہیں، انہوں نے گویا محمود عباس کے استعفے کا اعلان سنا ہی نہیں۔ حماس کے راہنما نے کہا کہ امریکا نہ تو فلسطینی عوام کو انصاف دلانا چاہتا ہے اور نہ ہی اس کی صلاحیت رکھتا ہے، امریکا اسرائیل کوفلسطینیوں کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں پر جھڑک بھی نہیں سکتا۔ امریکا کے اسرائیل اور عربوں کے ساتھ مفادات الگ الگ ہیں، عربوں کے ساتھ تعلقات کو وہ ضمنی حیثیت دیتا ہے جبکہ اسرائیل کے ساتھ کھل کرمعاملات کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔