ترکی کی جانب سے اسرائیل کے ساتھ روا رکھی گئی حالیہ پالیسی کو عرب ممالک کے میڈیا اور عوام میں بڑی پذیرائی دی جا رہی ہے۔ اردن کے مختلف مصنفین اور کالم نگاروں نے عرب ممالک سے اپیل کی ہے کہ وہ اسرائیل کے بارے میں اپنی نرم پالیسی کو تبدیل کرتے ہوئے ترکی کی پیروی کریں۔ اردن کے کالم نگاروں نے اپنے مضامین میں ترک وزیراعظم رطیب اردگان کی جانب سے اسرائیل کو تنقید کا نشانہ بنانے کا خیر مقدم کرتے ہوئے انہیں زبردست خراج تحسین پیش کیا ہے اور اسے تمام عرب ممالک کے حکمرانوں کے لیے بہترین نمونہ قرار دیا ہے۔ ترک وزیراعظم کی جانب سے اسرائیل کے ساتھ اپنائی گئی حالیہ پالیسی کو وقت کے اعتبار سے اہم قرار دیتے ہوئے اس کے حق میں مضامین لکھے ہیں جس میں اسرائیل میں ترک سفیر کی توہین اور ترکی کی جانب سے جرات مندانہ رد عمل کو موضوع بنایا گیا ہے۔ اردنی اخبار” عرب ٹوڈے کے ہفتہ کے روز کی اشاعت میں لکھے گئے اداریے میں بھی طیب اردگان کے رویے کی تعریف کی کی گئی۔”اردگان کی عظمت” کے عنوان سے تٓحریر کردہ اداریے میں کہا گیا ہے کہ اس وقت صرف ترکی ایک ایسا ملک ہے جس نے اسرائیل کو لگام دینے کی پالیسی اختیار کررکھی ہے۔ فلسطینی عوام کے حقوق کے دفاع کی جس طرح ترکی کی طرف سے کی جا رہی ہے، عرب ممالک کی جانب سے اس کا عشر عشیر بھی نہیں۔ ایسے میں تمام عرب ممالک کوترکی کی پیروی کرتے ہوئے اسرائٓیل کے حوالے سے پالیسی اختیار کرنا ہو گی۔ اردن کے ایک دوسرے اخبار “السبیل” میں عبداللہ المجالی کا مضمون کے شائع مضمون میں کہا گیا کہ اگر ترکی اپنے سفیر کی توہین پر جرات مندانہ موقف اختیارنہ کرتا تو اسرائیل ترکی سے کبھی معافی نہ مانگتا۔ انہوں نے استفسار کیا کہ اسرائیل عرب ممالک کے سفیروں کی کئی مرتبہ توہین کر چکا ہے تاہم نہ تو عرب حکومتوں کی طرف اس پر احتجاج کیا گیا اور نہ ہی اسرائیل نے کبھی اس پر معافی طلب کی۔ انہوں نے عرب ممالک پر زور دیا کہ وہ بھی اسرائیل کے حوالے اسی نوعیت کی پالیسی اختیار کریں تاکہ صہیونی جارحیت اور اس کے بڑھتے ہوئے قدموں کو روکا جا سکے۔