فلسطینی ذرائع نے انکشاف کیا ہے کہ متنازعہ فلسطینی صدر محمود عباس کے زیرکمانڈ ملیشیا اور مصری سیکیورٹی حکام کے درمیان ایک خفیہ معاہدہ طے پایا ہے، معاہدے کے تحت غزہ میں اسلامی تحریک مزاحمت “حماس” کے قائدین اور کارکنان کو سعودی عرب عمرے کے لیے سفر کرنے کی اجازت نہ دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے. ایک عرب نشریاتی ادارے کے ذرائع سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق عباس ملیشیا کی جانب سے مصری حکام کو حماس کے ایسے راہنماٶں اور کارکنان کی ایک فہرست بھی دی گئی ہے جن کے بارے میں امکان ہے کہ وہ رمضان المبارک کے دوران مصر کے راستے سعودی عرب عمرے کی ادائیگی کے لیے جانے کا ارادہ رکھتے ہیں. رپورٹ کے مطابق یہ معاہدہ ایک ماہ قبل رمضان سے چند روز پہلے طے پایا. معاہدے کے تحت عباس ملیشیا کے اعلیٰ اہلکاروں نے مصری حکام سے کہا کہ وہ صرف ان شہریوں کو غزہ سے باہر عمرے کی غرض سے سفر کی اجازت دیں گے جن کی عباس ملیشیا کی طرف سے منظوری دی گئی ہو گی، جبکہ حماس کے کسی راہنما یا کارکن کو بیرون ملک سفر کی کسی صورت میں اجازت نہ دی جائے. ذرائع کا کہنا ہے کہ فریقین میں طے پانے والے معاہدے کا مقصد حماس کی قیادت کو بیرون ملک جمع ہونے سے روکنا ہے. مصر کو خدشہ ہے کہ حماس کے قائدین کو رفح کے راستے سعودی عرب جانے کی اجازت دی گئی تو وہ واپسی پر امدادی قافلوں کی صورت میں آئیں گے جبکہ مصر حماس کی نگرانی میں امدادی قافلوں کو غزہ جانے کی اجازت نہیں دیتا. نیز یہ بھی امکام ہے کہ حماس کے راہنما دمشق میں دیگر جلاوطن راہنماٶں کےساتھ مل کر کوئی نئی حکمت عملی بھی مرتب کر سکتے ہیں. خیال رہے کہ دو روز قبل مصر نے غزہ میں فلسطینی مجلس قانون ساز کے ڈپٹی اسپیکر ڈاکٹر احمد بحر کو ایک وفد کے ہمراہ عمرے کی ادائیگی کے لیے رفح بارڈر سے باہر نکلنے سے روک دیا تھا. ادھر حماس نے مصری حکام کے اس اقدام کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے غزہ کے معتمرین کو سعودی عرب جانے کی اجازت فراہم کرنے کا مطالبہ کیا ہے.