فلسطینی غیر آئینی حکومت کے صدر محمود عباس نے اعلان کیا ہے کہ چار طرفہ بین الاقوامی تنظیم کی 19 مارچ کی قرار داد کے مطابق اسرائیل سے براہ راست مذاکرات کے لیے پوری طرح تیار ہیں، تاہم انہوں نے کہا ہے کہ بات چیت کا ایجنڈا طے ہونے اور یہودی بستیوں کی تعمیر روکے جانے کے بعد ہی مذاکرات کا آغاز ہو گا۔ محمود عباس نے ایوان صدر میں اخباروں کے ایڈیٹرز اور ذرائع ابلاغ کے دیگر نمائندوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ’’ یہ فلسطینی شرائط نہیں ہیں بلکہ یہ مذاکرات کی کامیابی کے لیے بنیادی ضروریات ہیں جنہیں روڈ میپ پلان میں ذکر گیا ہے، یہ روڈ میپ اب عالمی قرارداد بن چکا ہے‘‘ محمود عباس نے انکشاف کیا کہ اسرائیل کے ساتھ مذاکرات کے لیے تین ترغیبات موصول ہوئی ہیں، سب سے پہلے امریکی صدر نے مذاکرات کی بحالی پر زور دیا، دوسرا رام اللہ حکومت، اقوام متحدہ اور اسرائیل کے مابین مذاکرات کے کی بحالی پر سہ رکنی ملاقات ہوئی، انہوں نے کہا کہ میں نے ان دونوں اپیلوں کو مسترد کر دیا تاہم اسرائیل اور فلسطین کے مابین مذاکرات کی تیسری ترغیب اقوام متحدہ، یورپی یونین، امریکا اور روس پر مشتمل چار رکنی تنظیم کی جانب سے آئی جسے قبول کر لیا گیا۔ واضح رہے کہ صہیونی ریاست کے مذاکرات کی بات اس دوران کی جا رہی ہے جب اسرائیل مسلسل یہودی بستیوں کی تعمیر، فلسطینیوں کے گھروں کے انہدام اور ان کی شہربدری، مغربی کنارے اور مقبوضہ بیت المقدس میں اسلامی مقدسات کو یہودی رنگ میں رنگنے جیسی کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہے۔ اسرائیل کے وزیر اعظم بنجمن نیتن یاھو کہ چکے ہیں کہ یہودی بستیوں کو روکنے کے فیصلے کی تجدید نہیں کی گئی اور سب سے بڑھ کر اقوام متحدہ نے براہ راست مذاکرات کے نتیجہ خیز ہونے کی ضمانت دینے سے انکار کر دیا ہے۔ دوسری جانب عباس نے امید ظاہر کی کہ عرب فلسطین بالخصوص القدس کا دورہ کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ فلسطین اور بالخصوص القدس شہر کے دورے کا مطلب جیلر کے ساتھ تعلقات استوار کرنا نہیں بلکہ قیدیوں کا محاصرہ توڑنے کے مترادف ہے اور اسلام اس قسم کے دوروں کو ناجائز قرار نہیں دیتا، یاد رہے کہ ازھر یونیورسٹی کے شیخ الازھر ڈاکٹر احمد طیب نے اسرائیل کے مقبوضہ بیت المقدس پر قبضہ برقرار رہنے کی صورت میں اس شہر کے دورے کو حرام قرار دیا ہے، انہوں نے اسے قابض دشمن کے ساتھ حالات معمول پر لانے اور ارض فلسطین پر دشمن کے وجود کے جواز کو تسلیم کرنے کے مترادف قرار دیا ہے۔