آئرلینڈ کے سابق صدر میری روبن سن کی سربراہی میں عالمی دانشوروں کے ایک وفد نے شام کے دارالحکومت دمشق میں حماس کے سیاسی شعبے کے سربراہ خالد مشعل سے ملاقات میں فلسطینی مصالحت اور غزہ محاصرے پر تبادلہ خیال کیا، وفد میں سابق امریکی صدر جمی کارٹر بھی شریک تھے۔ غزہ کی پٹی کا دورہ کے دوران فلسطینی وزیر اعظم اسماعیل ھنیہ سے ملاقات کے بعد عالمی دانشوروں کا یہ وفد منگل کے روز دمشق پہنچا۔ وفد نے غزہ کے سفر کے دوران وہاں کے تمام علاقوں کا تفصیلی معائنہ بھی کیا تھا۔ دمشق میں ملاقات کے بعد حماس کے خارجہ امور کے ذمہ دار اسامہ حمدان نے ذرائع ابلاغ کو بتایا کہ اس ملاقات میں حماس نے وفد کی جانب سے غزہ کا محاصرہ ختم کرنے کی جدو جہد کی تعریف کی اور اس ملاقات کو ایک اہم اقدام قرار دیا۔ حمدان کے بہ قول فریقین میں فلسطینی مصالحت، فلسطینی تصفیے اور غزہ کے ظالمانہ محاصرے پر بڑی پر مغز گفتگو ہوئی۔ حمدان نے بتایا کہ حماس نے وفد کے اراکین کو بتایا کہ وہ فلسطینی قوم کے درمیان اتحاد اور فلسطینی مصالحت کی شدید خواہش رکھتی ہے۔ حماس نے اس موقع پر فتح کی جانب سے حماس قیادت سے ملنے سے انکار کے باوجود داخلی انتشار ختم کرنے کی اپیل کی۔ یاد رہے کہ فلسطینی مصالحت کے حصول کے لیے حماس اور فتح کے مابین ایک ماہ قبل نئے سرے سے رابطے قائم ہوئے تھے، مذاکرات کا دوسرا دور 20 اکتوبر کو دمشق میں طے پایا تھا تاہم فتح نے دمشق آنے سے انکار کر دیا ہے جس سے مصالحتی گفت و شنید مزید تعطل کا شکار ہو چکی ہے۔ مسئلہ فلسطین کے حل اور تصفیے پر بات چیت کرتے ہوئے حمدان نے بتایا کہ عرب دنیا نے تصفیے کے بہت سے مواقع فراہم کیے ہیں، عربوں نے اپنے بہت سے حقوق سے دستبرداری اختیار کر لی مگر اسرائیلی ہٹ دھرمی اور ضد کی وجہ سے اس ضمن میں پیش رفت ممکن نہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اسرائیل پر فلسطینیوں کے حقوق کی پاسداری کا دباؤ ڈالا جائے۔ ادھر، حمدان کے مطابق، حماس نے غزہ کے محاصرے پر بھی عالمی دانشوروں کو اپنے دو ٹوک موقف سے آگاہ کرتے ہوئے محاصرے کے فی الفور خاتمے کی ضرورت پر زور دیا، اور غزہ کے دورے کے موقع پر وفد کے بیانات کی ستائش کی ہے۔