مقبوضہ بیت المقدس کی بستان اورسلوان کالونیوں سے فلسطینیوں کی بے دخلی اور ان کے گھروں کو منہدم کرنے سے متعلق دو نئے صہیونی منصوبے طشت از بام ہوئے ہیں۔ یہودی آباد کاری امور کےایک ماہر وکیل کے مطابق قابض بلدیہ دونوںمنصوبے اسرائیلی حکومت اور اس کے قانونی مشیر کے سامنے پیش کرچکی ہے۔ اس کے بعد یہ منصوبے منظوری کے لیے القدس میں ’’تعمیرات و منصوبہ بندی” کمیشن کے سامنے پیش کئے جائیں گے۔
وکیل قیس ناصر نے بتایا کیا کہ بستان کالونی کے لیے تیار کیے گئے اس صہیونی منصوبے کے مطابق کالونی کے اطراف کو گرین بلٹ اور یہودی آثار قدیمہ پر مشتمل سیاحتی مرکز میں تبدیل کر دیا جائے گا۔
مسٹرناصر نے گزشتہ روز اپنے ایک بیان میں کہا کہ بستان کالونی کا موجودہ رقبہ 53 ایکڑ ہے جس میں فلسطینیوں کے 88 گھر ہیں جن میں سے اکثر سےمتعلق یہودی بلدیہ نے انہدام یا سیل کرنے کے احکامات صادرکررکھے ہیں۔ اس منصوبے کے ذریعے بستان کالونی کو ایک سیاحتی اور آثار قدیمہ کی جگہ قرار دینے کی کوشش کی جارہی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اس منصوبے کے تحت بستان کالونی کے مشرقی حصے کے 22 گھروں کو خالی کرا کر یہاں کے باسیوں کو کالونی کے مغربی علاقے میں منتقل کر دیا جائے گا۔
وکیل ناصر کے مطابق دوسرا منصوبہ سلوان کالونی کے لیے تشکیل دیا گیا ہے جس کے تحت سلوان کالونی کے لئے نئی پلاننگ پالیسی تیار کی جائے گی ۔ اس منصوبے کے تحت پانچ منزلوں پر مشتمل علاقے کی بیس عمارات کو مسمار کر دیا جائے گا۔
انہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ منصوبے کے مطابق عمارتوں کے انہدام کوقانونی شکل دینے کی خاطر انہیں مفاد عامہ کے کاموں کے نام پر ضبط کیا جائے گا۔ انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ منہدم کرنے کا سارا عمل قابض اسرائیلی بلدیہ کے ذریعے ہو گا اور مالک مکان کو اپنا گھر گرانے کا خرچہ بھی دیا جائے گا۔