Connect with us

اسرائیل کی تباہی میں اتنا وقت باقی ہے

  • دن
  • گھنٹے
  • منٹ
  • سیکنڈز

Uncategorized

ریچل کوری سے ”ریچل کوری“ تک

palestine_foundation_pakistan_rachel-corrie-who-was-killed-by-an-israeli-army-bulldozer-in-the-gaza-strip61

”ریچل کوری“ 10 اپریل 1979ء کو امریکا کے شہر ہوسٹن میں پیدا ہوئی۔ ابتدائی تعلیم واشنگٹن کے ایک اسکول سے حاصل کی۔”اولمپیا“ کے مشہور زمانہ ”کیپٹل ہائی اسکول“ سے گریجویشن کیا۔اعلیٰ تعلیم کے لیے ”دی ایور گرین اسٹیٹ کالج“ کا رُخ کیا۔ریچل کوری اپنے دوستوں سے اکثر کہتی تھی: ”میری خواہش ہے میں ایک کامیاب آرٹسٹ یا ایک مشہور و معروف لکھاری بن جاﺅں۔“ ریچل کوری کی زندگی دوسرے امریکیوں کی طرح تھی۔وہ صبح اُٹھتی،کالج جاتی، دوستوں کے ساتھ وقت گزرتا اور رات گئے واپس گھر آتی۔ لیکن 2001ء کے آخر میں اس کی زندگی یکسر تبدیل ہو گئی۔اس نے یونیورسٹی سے ایک سال کے لیے چھٹی لی اور انصاف اور امن کے لیے کام کرنے والی ایک تنظیم ”اولمپیا موومنٹ فار جسٹس اینڈ پیس“ میں شامل ہو گئی۔2002ء تک وہ اس تنظیم کے لیے کام کرتی رہی۔ اس تنظیم کے ساتھ کام کرتے ہوئے اس نے ظلم و ستم اور”بربریت“ کے کئی واقعات دیکھے۔ان واقعات نے اسے انتہائی حساس بنا دیا۔ خصوصاً فلسطینیوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کی ویڈیوز دیکھ کر وہ اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ پاتی۔ان مظالم کو دیکھ کر ریچل کوری نے دنیا بھر کے مظلوموں،خصوصاً بے یارومددگار فلسطینیوں کے لیے کچھ کرنے کی ٹھانی۔ اس مقصد کے لیے جنوری 2003ء میں اس نے ایک اور تنظیم ”انٹرنیشنل سولیڈیریٹی موومنٹ“ میں کام شروع کر دیا۔اس تنظیم کے بانیان میں فلسطینی نژاد ”غسان اندونی“ کے علاوہ ایک یہودی “ہویدا عراف“ اور چند عیسائی بھی تھے۔اس تنظیم کے چار بنیادی مقاصد تھے۔ نمبر ایک،ایسے علاقوں کو تلاش کرنا جہاں فلسطینی کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہوں۔ان کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھا جا رہا ہو اور ان کا کوئی پرسان حال نہ ہو۔یہ تنظیم اپنے ذرائع سے ایسے ممالک کی حکومتوں کو متوجہ کرتی۔ان کے لیے خصوصی وظائف کا اہتمام کراتی۔ اس تنظیم کا دوسرا مقصد یہ تھا ذرائع ابلاغ کو اسرائیلی جارحیت اور فلسطینیوں کی مظلومیت کی طرف متوجہ کیا جائے۔خصوصاً میڈیا کو باور کرایا جائے کہ امریکی امداد کے بل بوتے پر فلسطینیوں کا قتل عام ہو رہا ہے۔جب تک اس امداد کو نہیں روکا جاتا،اس وقت تک فلسطینیوں کا خون بہتا رہے گا۔ اس تنظیم کا تیسرا مقصد یہ تھا کہ ہر ملک سے کچھ لوگوں کو اکٹھا کیا جائے۔انہیں تربیت دی جائے اور پھر فلسطین میں ناجائز یہودی قبضے کے خلاف ان سے پُرامن احتجاج کروایا جائے۔ اس تنظیم کا چوتھا کام یہ تھا کہ یورپ اور امریکا میں بینک بیلنس رکھنے والے لوگوں کو تلاش کیا جائی،ان سے درخواست کی جائے کہ اپنے ملکوں پر اسرائیل کے خلاف دباﺅ ڈلوائیں۔اپنے ممالک کو مجبور کریں وہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات پر نظرثانی کریں۔یہ تنظیم 2001ء میں قائم ہوئی تھی۔2003ء میں ریچل کوری جونہی اس میں شامل ہوئی،چند ہفتوں میں اس کی مقبولیت کا گراف بلند ہو گیا۔جہاں کہیں کوئی اہم واقعہ ہوتا،ریچل کوری وہاں موجود ہوتی۔ 22 جنوری 2003ء کو اس تنظیم کی طرف سے ایک مظاہرے میں شرکت کے لیے ریچل کو مغربی کنارے بھیجا گیا۔اسے دو دن تک پُرامن مظاہرے کے لیے ٹریننگ دی گئی۔مارچ 2003ء میں جب امریکا عراق پر جارحیت کا ارتکاب کر رہا تھا تو اس کے خلاف پوری دنیا میں مظاہرے شروع ہو گئے۔ ”رفاہ“ میں فلسطینیوں نے کئی بڑے مظاہرے کیے۔ ریچل نے ان میں نہ صرف شرکت کی بلکہ امریکی میڈیا نے ان مظاہروں کو غیر معمولی کوریج دی۔اس کی اہم ترین وجہ یہ تھی ریچل نے امریکی شہری ہوتے ہوئے ایک مرتبہ امریکی جھنڈا نذرِ آتش کر دیا۔ جب ”مڈل ایسٹ براڈ کاسٹنگ نیٹ ورک“ نے ریچل سے اس نفرت کی وجہ پوچھی تو اس نے دوٹوک جواب دیا: ”امریکا کی سرپرستی میں فلسطینی مسلمانوں کو صفحہ ہستی سے مٹانے کی منظم سازشیں ہو رہی ہیں۔یوں معلوم ہوتا ہے جیسے اسرائیلیوں نے پورے علاقے کو گھیرے میں لے رکھا ہو اور امریکا اس کی پشت پر کھڑا ہو۔“ پھر ریچل کوری کی زندگی میں 16 فروری کا دن طلوع ہوتا ہے۔ایک ایسا دن جو اس کے لیے تو موت کا پیغام لے کر آ رہا تھا،لیکن اسرائیل کی درندگی کو دنیا بھر میں آشکار کرنے کا عنوان بن رہا تھا۔ریچل کو بتایا گیا ”حی السلام“ نامی محلے میں اسرائیلی فوج مکانات گرانے آئی ہے۔وہ اپنے چند ساتھیوں کے ہمراہ وہاں پہنچی۔اس نے دیکھا اسرائیلی فوج دیوہیکل بلڈوزر لائی ہے۔اور ایک ایک کر کے فلسطینیوں کے گھر مسمار کر رہی ہے۔ریچل نے اپنے معاون کارکنوں کے ذریعے وہاں مذمتی بینر لگائے اور ”میگافون“ کے ذریعے اعلان شروع کر دیا۔ اس نے اسرائیلی فوج کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: ”مظلوم فلسطینیوں کے مکانات گرانا سب سے بڑی دہشت گردی ہے۔“ لیکن اقوام متحدہ کی قراردادوں کو جوتے کی نوک پر رکھنے والوں کو اس ”نحیف آواز“ کی کیا پروا تھی؟ چنانچہ اسرائیلی بلڈوزرز آگے بڑھے۔یہاں تک کہ وہ اپنے مقررہ ہدف سے صرف چند میٹر کے فاصلے پر رہ گئے۔ اب ریچل کوری نے ایک ایسا فیصلہ کیا جس کا تصور کرتے ہی کپکپی طاری ہو جاتی ہے۔اس نے اعلان کیا: ”اس محلے تک بلڈوزر میری لاش پر سے گزر کر جائے گا۔“ میڈیا اور دیگر افراد نے یہ اعلان سنا تو سنسنی پھیل گئی۔سب کو یقین تھا اسرائیلی فوج واپس ہو جائے گی۔وہ ایک امریکی کی جان کبھی نہیں لے گی،مگر بچھو سے خیر کی کیا توقع رکھی جا سکتی ہے؟ پھر سب نے دیکھا بلڈوزر آہستہ آہستہ آگے بڑھنے لگا۔ریچل مسلسل انتباہ کرتی رہی۔بلڈوزر چلانے والے نے اپنے دائیں طرف دیکھا۔یہودی فوج کی طرف سے ”گرین سگنل“ مل چکا تھا۔کیمرے کی آنکھ اس منظر کو محفوظ کر رہی تھی۔ وہاں موجود لوگ لرزاں تھے۔اسرائیلی فوج کا بلڈوزر مزید آگے بڑھا۔چند فٹ کا فاصلہ رہ گیا،تب بھی ریچل کے پاﺅں میں لغزش نہ آئی۔وہ استقامت کے ساتھ کھڑی رہی اور پھر اس کی آخری چیخ سنی گئی۔ ”کیٹر پلر“ کا بھاری بھر کم بلڈوزر اس نحیف لڑکی کے جسم کو کچلتا ہوا آگے نکل گیا۔ پوری دنیا نے یہ منظر دیکھا کہ کس طرح اسرائیلی درندوں نے ”امن کی فاختہ“ کو شکار کر لیا۔ریچل کوری کے جسم سے خون کے فوارے پھوٹنا شروع ہوئے اور اسرائیل کی درندگی اور بربریت کی ایک ایسی مثال دنیا کے سامنے آ گئی،جسے جھٹلانا ممکن نہ تھا۔یہ ریچل کوری کی حقیقی داستان ہے۔ آپ انٹرنیٹ پر جا کر (Rachel Corrie) سرچ کریں۔آپ کے سامنے خون میں لت پت تصاویر آئیں گی۔ریچل کی پوری زندگی آپ یہیں دیکھ سکتے ہیں۔ریچل کی طرف بڑھنے والے اس دیوقامت بلڈوزر کا نظارہ کر سکتے ہیں۔اس کے والدین کے جذبات اور احساسات ملاحظہ کرسکتے ہیں۔ مجھے یہ مظلوم امریکی اس لیے یاد آرہی ہے کہ آج ایک خبر نے اسے پھر سے زندہ کر دیا ہے۔خبر ہے: ”اسرائیلی فوج نے غزہ کے لیے امداد لے جانے والے ایک اور بحری جہاز ”ریچل کوری“ پر بھی قبضہ کر لیا ہے۔واضح رہے کہ ”ریچل کوری“ انسانی حقوق کی ایک امریکی امدادی کارکن تھی۔وہ ایک اسرائیلی بلڈوزر کے نیچے دب کر اس وقت ماری گئی،جب غزہ میں فلسطینیوں کے مکانات کو منہدم ہونے سے روکنے کی کوشش کر رہی تھی۔“یہ فلسطین اور اہلِ فلسطین کی خوش قسمتی ہے کہ اسرائیل اس وقت پوری دنیا کو للکارتا ہوا نظر آ رہا ہے۔ جو لوگ اسرائیل کو صرف مسلمانوں کا دشمن سمجھتے تھے،آج وہ اس اسرائیل کو 40 ممالک کو چیلنج کرتا ہوا دیکھ رہے ہیں۔ ذرا سوچیے! ”فریڈم فلوٹیلا“ میں عیسائی بھی تھے،یہودی بھی اور لادین بھی۔یہ بالکل انسانی بنیادوں پر چلنے والا قافلہ تھا۔امریکی سفیر اور نوبل انعام حاصل کرنے والے تک اس میں شامل تھے۔ 35 ارکانِ پارلیمنٹ تھے۔ یورپ اور عرب کی 44 مشہور سماجی شخصیات اس کا حصہ تھیں۔ 60 صحافی اس میں موجود تھے۔گویا یہ چالیس ممالک کا نمائندہ قافلہ تھا۔اس میں کوئی ہتھیار تھا نہ اب تک اس سے کوئی دھماکا خیز مواد برآمد کیا جاسکا،لیکن اسرائیل نے مہذب دنیا کی تاریخ میں ایک ایسی جارحیت کی،جس کی مثال نہیں ملتی۔ اس نے امریکی سفیر کا خیال نہ کیا۔ وہ امریکا جس نے اس وحشیانہ اقدام کے خلاف قرارداد کی مخالفت کی۔اندازہ کیجیے 32 ممالک میں سے صرف 3 ممالک ایسے بدقسمت تھے جنہوں نے بے ضمیری کی نئی مثال قائم کی۔ان میں ایک امریکا تھا۔وائٹ ہاﺅس کے ترجمان ”رابرٹ گبز“ سے جب وجہ پوچھی گئی تو کیا خوب کہی: ”مذمت کے ذریعے ہم مرنے والوں کو واپس تو نہیں لاسکتے۔“ سننے والوں کو حیرت ہوئی۔اگر ایسا ہی ہے تو پھر نائن الیون کے واقعے میں مرنے والے صرف تین ہزار امریکیوں کے لیے افغانستان کو کیوں تاخت وتاراج کیا گیا؟ کیا مرنے والے واپس آگئے؟ کیا ہزاروں لوگوں کو زندگی بھر کے لیے معذور کرنے سے ہلاک ہونے والے امریکی واپس آگئے؟ دراصل اس وقت اسرائیل دنیا میں عالمی غنڈے کا کردار ادا کر رہا ہے اور امریکا اس کی سرپرستی کر رہا ہے۔اس عالمی غنڈے نے 2007ء میں غزہ پر ہونے والی جارحیت میں سیکڑوں لوگوں کو شہید کیا۔بچوں کا قتل عام کیا۔خاندان کے خاندان کا صفایا کیا۔آج بھی غزہ میں 15 لاکھ انسان محصور ہیں۔23 میں سے 15 ہسپتال اس کے ہاتھوں تباہ ہوچکے ہیں۔110 میں سے 42 ڈسپنسریاں اس کی بربریت کا شکار ہو چکی ہیں۔ادویات کی عدم دستیابی سے ہر طرف موت کے مناظر ہیں۔ ایسے موقعے پر ”ریچل کوری“ کی طرح مئی کے اواخر میں چند باضمیر اُٹھے تو عالم اسلام کو ان کے لیے ڈھال بننا چاہیے تھا،لیکن پورے عالم اسلام میں صرف ترکی تھا جس نے اس پر لبیک کہا۔اس بار ترکی کا انداز بھی بڑا نرالا تھا۔اس نے ایسی خوبصورتی سے دنیا کے 40 ممالک کو اسرائیل کا خونخوار چہرہ دکھایا جس کی مثال نہیں ملتی۔یقینا اس قافلے میں 20 لوگ بھی مارے گئے،لیکن یہ لوگ ایسا چراغ روشن کر گئے جو ایک عرصے تک جلتا رہے گا۔ اسی کو دیکھ کر آئرلینڈ سے ”ریچل کوری“ ایک بار پھر زندہ ہو گئی ہے! اگرچہ ”ریچل کوری“ کو اسرائیل نے اپنے قبضے میں لے لیا ہے، لیکن غبارے سے ہوا نکل چکی ہے۔مایوسی کے بادل کافی حد تک چھٹ چکے ہیں۔دنیا کے انصاف پسند ممالک بھی آگے بڑھ رہے ہیں۔ بس اب کمی ہے تو مسلم ممالک کی مضبوط پوزیشن کی۔کیا ہی بہتر ہو اسلامی دنیا خصوصاً پاکستان اور سعودی عرب جرات کر کے ایک بیڑہ ”شیخ یٰسین“ کے نام سے غزہ بھجوا دیں! جمال عبداللہ عثمان “روزنامہ جسارت”

Click to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Copyright © 2018 PLF Pakistan. Designed & Maintained By: Creative Hub Pakistan