تہران کی مرکزی نماز جمعہ رہبرانقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای کی امامت میں ادا کی گئی۔ آپ نے دسیوں لاکھ نمازیوں سے خطاب میں فرمایا کہ تیونس اور مصر کے عوام کی اسلام پسندی اور حریت پسندی ان کے قیام کا بنیادی محرک ہے۔رہبرانقلاب اسلامی نے علاقائي ممالک منجملہ مصر اور تیونس میں آنے والی تبدیلیوں کے اسباب پرروشنی ڈالتےہوئے فرمایا کہ ان ملکوں کے عوام نے اقتصادی مسائل کے باوجود قیام کیا ہے لیکن ان کے قیام کی بنیادی وجہ وہ احساس حقارت ہےجو انہیں اپنے حکام کی وجہ سے ہوتا ہے۔ رہبرانقلاب اسلامی نے تیونس کے حالات کی طرف اشارہ کرتےہوئے کہا کہ اس ملک کا سابق صدر زین العابدین بن علی امریکہ اور امریکی جاسوس تنظیم سی آئي اے سے وابستہ تھا۔ آپ نےفرمایا کہ ایک قوم کے لئے ناقابل برداشت ہےکہ اسکی حکومت کا سربراہ امریکہ اور سرکاری غلام ہو اور برسوں تک اپنی قوم اور دین کے خلاف اقدامات کرتا رہے۔ آپ نے تیونس میں آنےوالی تبدیلیوں کو سطحی قراردیا اور امیدظاہر کی کہ عوام کی ہوشیاری سے بنیادی تبدیلیاں آئيں گي۔رہبرانقلاب اسلامی حضرت آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے مصر کے عوام کے قیام کا ذکرکرتےہوئے اسلامی پسندی اور مغربی تہذیب تمدن کے مقابل استقامت نیز صیہونی حکومت کےخلاف جدوجہد کے میدانوں میں مصر کی تاریخ کی وضاحت کی اور فرمایا کہ ان تمام امور کے باوجود حسنی مبارک نے تیس برسوں تک مصر کی عظیم قوم کو ذلیل کیا کیونکہ وہ حریت پسندی کا دشمن اور صیہونیوں کا آلہ کار، معاوں ، ہمنوا اور امانت دار ہے۔رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ وہ ملک جس نے عالم عرب کو صیہونیوں کےخلاف جدوجہد کا سلیقہ سکھایا تھا اس نےحسنی مبارک کے زمانے میں غزہ کے محاصرے میں ملت فلسطین پر ظلم کرنے نیز اسرائيل کے ساتھ تعاون کرنے میں کوئي دقیقہ فروگذاشت نہ کیا۔ رہبرانقلاب اسلامی نے فرمایا کہ ان دنوں ملت مصر اسلامی اور دینی نعروں اور اصولوں پر تاکید کررہی ہے اور ان حالات میں امریکہ اور صیہونی حکومت بوکھلا گئےہیں کیونکہ ملت مصر کی کامیابی علاقے میں امریکہ کی بہت بڑی شکست ہوگي ۔