فلسطینی مجلس قانون ساز کے رکن اور القدس کمیٹی کے مندوب احمد ابو حلبیہ نے اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاھو کے اس بیان کی شدید مذمت کی ہے جس میں صہیونی وزیراعظم نے مسجد ابراھیمی کو مقبوضہ الخلیل شہر کا حصہ قرار دیا ہے۔ اتوار کے روز مرکزاطلاعات فلسطین سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر حلبیہ نے کہا کہ اسرائیل ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت حرم ابراھیمی سمیت تمام فلسطینی اسلامی آثار قدیمہ کو یہودیت میں تبدیل کرنا چاہتا ہے۔ اس سلسلے میں حرم ابراھیمی کو یہودی ثقافتی مرکز میں تبدیل کرنا نہایت خطرناک ہے جس پر کسی صورت میں خاموشی اختیار نہیں کی جا سکتی۔ انہوں نے کہا کہ بیت المقدس اور مغربی کنارے میں اسلامی آثار کو یہودیت میں تبدیل کرنا اسرائیل کی 1948ء سے ہی ایک اسٹریٹیجک پالیسی رہی ہے۔ حرم ابراھیمی کو الخلیل کے مقبوضہ علاقوں میں شامل کرنے کا اسرائیلی وزیراعظم کا اعلان اپنے اندر نہایت خطرناک پہلو رکھتا ہے، جس پر فلسطینی عوام، عرب ممالک، عالم اسلام اور دنیا کے تمام آزادی پسند شہریوں کو آواز اٹھانا چاہیے۔ ڈاکٹر ابوحلبیہ نے عرب ممالک اور عالم اسلام کی توجہ فلسطین میں اسلامی آثار کو یہودیت میں تبدیل کرنے کی سازشوں کی جانب مبذول کراتے ہوئے مطالبہ کیا کہ یہودی اور صہیونی سازشوں کے جواب میں ٹھوس اور سخت موقف اختیار کیا جائے۔ واضح رہےکہ اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاھو نے ایک بیان میں الخلیل میں مسجد ابراھیمی اور بیت لحم میں مسجد بلال بن رباح رضی اللہ عنہ کو یہودیوں کے مذہبی آثار قدیمہ کا حصہ قراردیا ہے۔ صہیونی وزیراعظم نے اس سلسلے میں مسلمانوں کے دونوں مذہبی مقامات کو یہودیت میں تبدیل کرنے کے لیے 1500 ڈالر کی فراہم کرنے کا بھی اعلان کیا ہے۔