امریکا کے نائب صدر جوزف بائیڈن نے اسرائیل کے حالیہ دورے میں اسرائیل کے بارے میں جو کچھ کہا اُس کا مفہوم یہ تھا کہ امریکا اور اسرائیل ایک روح اور دو قالب ہیں۔امریکا اسرائیل سے ہے اور اسرائیل امریکا سے۔اسرائیل کا نقصان امریکا کا نقصان ہے اور اسرائیل کا فائدہ امریکا کا فائدہ ہے۔مگر اس کے باوجود اسرائیل نے جوزف بائیڈن کی اسرائیل میں موجودگی کو نظرانداز کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ مشرقی بیت المقدس میں 1600 گھروں کی تعمیر کے منصوبے پر عمل جاری رہے گا۔غور کیا جائے تو یہ اعلان،اعلان نہیں تھا امریکا کے منہ پر طمانچہ تھا،اس لیے کہ جوزف بائیڈن نے اسرائیل کی شان میں قصیدہ پڑھنے کے باوجود اسرائیل سے کہا تھا کہ وہ گھروں کی تعمیر کے منصوبے کو منجمد کر دے۔لیکن اسرائیل نے گربہ کشتن روز اول کے مصداق امریکا پر واضح کر دیا کہ اس کے مطالبے پر عمل درآمد ممکن نہیں۔
امریکا کے لیے یہ صورت ِحال غیر متوقع تھی اور امریکا کی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن نے اسرائیل کے اس اعلان کو ”توہین آمیز“ قرار دیتے ہوئے مطالبہ کیا کہ اسرائیل اپنے اعلان پر معذرت کرے۔لیکن اسرائیل کے وزیراعظم بنجامن نیتن یاہو نے معذرت کے بجائے منصوبے کو جاری رکھنے کا اعلان کیا۔ اس صورت حال نے امریکا اسرائیل تعلقات میں ایک بحرانی صورت حال پیدا کر دی ہے۔لیکن یہ بحرانی صورت حال منظرنامے کا ثانوی پہلو ہے۔منظرنامے کا بنیادی پہلو اسرائیل کی بے پناہ قوت اور اس کا وہ تکبر ہے جو عربوں کو کیا امریکا کو بھی خاطر میں لانے پر تیار نہیں۔امریکا اسرائیل تعلقات کے مذکورہ منظرنامے کو دیکھا جائے تو کہا جاسکتا ہے کہ دنیا کی واحد طاقت امریکا نہیں اسرائیل ہے۔یہاں سوال یہ ہے کہ اسرائیل کی اس بے پناہ طاقت کا راز کیا ہے؟اس سوال کا ایک جواب علامہ اقبال رہ کے یہاں یہ ہے کہ ”فرنگ کی رگ ِ جاں پنجہ یہود میں ہے“۔ یہودیوں کی تاریخ یہ ہے کہ وہ جہاں جاتے ہیں طاقت کے سرچشموں پر قبضے کی کوشش کرتے ہیں۔مسلم اسپین کی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو یہودی، مسلمانوں کی بے مثال رواداری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے علم کے میدان اور دربار کی دنیا دونوں جگہ متحرک نظر آتے ہیں۔یہودی یورپ آئے تو یہاں بھی انہوں نے علم وابلاغ اور مالیات کے شعبوں پر قبضہ جمایا۔یہودیوں کے ساتھ ہٹلر کا ظلم تسلیم،مگر اس کی وجہ یہ تھی کہ ہٹلر نے جرمن بینکوں سے اپنی اسلحہ سازی کی صنعت کے لیے قرض طلب کیا اور جرمنی کے بینکاری نظام پر یہودی قابض تھے۔انہوں نے ہٹلر سے صاف کہا کہ قرض تو ہم تمہیں ضرور دیں گے مگر شرح سود پر سودے بازی نہیں ہو سکتی۔ ہٹلر نے یہودیوں کے اس طرزعمل کو غداری پر محمول کیا،اس نے کہا کہ جرمنی کے وسائل اگر جرمنی کے کام نہیں آسکتے تو پھر یہودیوں کے کام کیوں آئیں؟ اس تناظر میں دیکھا جائے تو اقبال کے اس تبصرے کی معنویت پوری طرح آشکار ہو جاتی ہے کہ فرنگیوں کی ساری قوت یہودیوں کے ہاتھ میں ہے۔
اقبال کے زمانے سے آج تک یہ صورت حال تبدیل نہیں ہوئی بلکہ اس کی سنگینی میں اضافہ ہی ہوا ہے۔یہودیوں کی بے پناہ طاقت کا ایک تناظر تو یہ ہے۔یہودیوں کی طاقت کا دوسرا سبب بھی اقبال نے غیر معمولی بصیرت کے ساتھ بیان کیا ہے۔انہوں نے کہا ہے کہ اسرائیل کا وجود ایشیا کے دہانے پر مغربی دنیا کی فوجی چھاﺅنی کی حیثیت رکھتا ہے۔تاریخی اعتبار سے اس تبصرے کی معنویت یہ ہے کہ یورپی طاقتیں ایک جانب اپنی نوآبادیوں کو چھوڑ رہی تھیں اور دوسری جانب وہ ایسے اقدامات کر رہی تھیں جن کے ذریعے اپنی سابق نوآبادیوں کو دُور سے کنٹرول کیا جاسکے۔مشرق وسطیٰ کے قلب میں اسرائیل کی تخلیق کا ایک زاویہ یہ ہے کہ اس کے ذریعے مغربی طاقتیں پورے مشرق وسطیٰ اور اس کے حوالے سے ایشیا کے بڑے حصے کو کنٹرول کریں۔
گزشتہ ساٹھ سال کی تاریخ کو دیکھا جائے تو مغربی طاقتوں نے پوری کامیابی اور کامل مہارت کے ساتھ اسرائیل کے ذریعے پورے مشرق وسطیٰ کو کنٹرول کیا ہے۔اس تناظر میں دیکھا جائے تو اسرائیل کی بے پناہ طاقت اسرائیل پر امریکا سمیت تمام مغربی طاقتوں کے انحصار سے نمودار ہوتی ہے۔ اسرائیل آج ختم ہو جائے تو مشرق وسطیٰ ہی نہیں پوری دنیا کی سیاست بدل کر رہ جائے گی۔ مشرق میں بڑے بڑے انقلابات رونما ہوں گے۔اس اعتبار سے دیکھا جائے تو اسرائیل کا وجود مشرق وسطیٰ میں تاریخی و سیاسی انجماد یا Status que کی علامت ہے۔اسرائیل کی قیادت کو ہمیشہ سے اپنی اس اہمیت کا شعور ہے اور وہ گاہے گاہے یورپ اور امریکا کو بتاتی رہتی ہے کہ اسرائیل کے بغیر مشرق وسطیٰ میں ان کی کوئی اوقات ہی نہیں ہو گی۔
اسرائیل کے وزیراعظم بنجامن نیتن یاہو نے امریکا کے نائب صدر جوزف بائیڈن کو غیر موثر ظاہر کر کے ایک بار پھر یہی حقیقت باور کرائی ہے۔لیکن اسرائیل کی طاقت کا ایک پہلو اور بھی ہے۔کہنے والوں نے کہا ہے اور بالکل درست کہا ہے کہ اسرائیل کا وجود اتنا حقیر ہے کہ دنیا کے ڈیڑھ ارب مسلمان اگر اسرائیل پر تھوک بھی دیں تو وہ مسلمانوں کے تھوک کے سیلاب میں غرق ہو جائے۔کہنے والوں نے یہ بھی کہا ہے کہ اسرائیل کی بساط ہی کیا ہے! آپ طیارے میں بیٹھتے ہیں اور پانچ منٹ کے فضائی سفر میں اسرائیل کا وجود ختم ہو کر رہ جاتا ہے۔لیکن اسرائیل جغرافیہ اور ریاست نہیں ہے،اسرائیل تاریخ ہے۔یہودیوں کا کمال یہ ہے کہ انہوں نے اسرائیل کے ذریعے اپنے گم شدہ ڈھائی ہزار سال دریافت کر لیے ہیں۔اسرائیل کے رہنما جب کلام کرتے ہیں تو ان کے لہجے میں ساٹھ سال کی نہیں ڈھائی ہزار سال کی گونج ہوتی ہے۔