جنوبی افریقہ میں نسلی پرست حکومت کے دورکی منظرعام پر آنے والی دستاویزات کے مطابق صہیونی ریاست اسرائیل نے 1975ء میں اس ملک کو جوہری ہتھیارفروخت کرنے کی پیش کش کی تھی۔ برطانوی اخبار ڈیلی میل میں سوموارکوشائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق جنوبی افریقہ کے وزیردفاع پی ڈبلیو بوتھا کو ایک انتہائی خفیہ ملاقات میں اس وقت کے اسرائیلی وزیردفاع اورموجودہ صدر شمعون پیریز نے تین طرح کے نیوکلئیر وارہیڈزفروخت کرنے کی پیش کش کی تھی۔ اخبار کے مطابق جنوبی افریقہ میں افریقی نیشنل کانگریس کی حکومت حال ہی میں بعض خفیہ دستاویزات منظرپرلائی ہے جن میں دونوں ممالک کے وزرائے دفاع کی ملاقات ثابت ہوتی ہےاوراس کی تفصیل درج ہے۔اسرائیل نے جنوبی افریقہ پراس دستاویز کو خفیہ رکھنے کے لیے دباٶ بھی ڈالا تھا۔ ایک اور برطانوی اخبار گارڈین کی رپورٹ کے مطابق اس ملاقات کی تفصیل کا انکشاف ایک امریکی محققہ ساشا پولاکو سرانسکی نے کیا ہے جو دونوں ممالک کے درمیان قریبی تعلقات کے بارے میں اپنی کتاب کے سلسلہ میں تحقیق کر رہی تھیں۔
اسرائیلی انکار
اسرائیل نے حسب روایت اپنے خلاف اس رپورٹ کو بھی بے بنیاد قراردیا ہے۔اسرائیلی صدر شمعون پیریز کی خاتون ترجمان ایلیٹ فریش سے جب اس کے بارے میں پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ ”گارڈین کی رپورٹ میں کوئی صداقت نہیں ہے”۔ ترجمان کا کہنا تھا کہ ”ہمیں افسوس ہے کہ اخبار نے صدر کے دفتر سے تبصرے کے لیے کوئی رابطہ نہیں کیا۔اگر ایسا کیا جاتا تو اخبار کو پتا چلتا کہ اس کی اسٹوری غلط اور بے بنیاد ہے”۔ جنوبی افریقہ کی جانب سے مذکورہ خفیہ دستاویز ایک ایسے وقت میں منظرعام پرآئی ہے جب اسرائیل نیویارک میں اقوام متحدہ کے زیراہتمام جوہری ہتھیاروں کے عدم پھیلاٶ کے بارے میں مذاکرات کر رہا ہے اور ان کا مرکزی موضوع مشرق وسطیٰ کو جوہری ہتھیاروں سے پاک خطہ بنانا ہے۔ اس رپورٹ سے اسرائیل کے اس دعوے کو بھی دھچکا لگے گا کہ ”اگر اس کے پاس جوہری ہتھیار ہیں،تووہ ایک ذمہ دار قوت ہے اور وہ ان کا غلط استعمال نہیں کرے گا۔” واضح رہے کہ اسرائیل نے اپنے جوہری ہتھیاروں کے بارے میں اخفا اور انکار کی پالیسی اختیار کررکھی ہے۔ اسرائیل جوہری ہتھیاررکھنے کی نہ تو تصدیق کرتا ہے اور نہ تردید کرتا ہے۔لیکن اس کے بارے میں یقین کیا جاتا ہے کہ وہ مشرق وسطیٰ کی واحد غیرعلانیہ جوہری قوت ہے اور اس نے جوہری ہتھیاروں کے عدم پھیلاٶکے معاہدے این پی ٹی پر بھی دستخط نہیں کیے ہیں۔ جنوبی افریقہ کی دستاویزات سے ظاہرہوتا ہے کہ وہ اپنے دشمن ممالک سے مقابلے کے لیے جریکو میزائل حاصل کرنا چاہتا تھا اوراسے اسرائیل کی جانب سے 31مارچ 1975ء کو جوہری ہتھیار مہیا کرنے کی پیش کش کی گئی تھی۔ ڈیلی میل کی رپورٹ کے مطابق جنوبی افریقہ کے فوجی سربراہ جنرل آر ایف آرمسٹرانگ نے اسرائیل کوخفیہ میمو لکھا تھا۔اس میں انہوں نے تحریرکیا:”جس اسلحہ نظام کی پیش کش کی گئی ہے،اس کے معیار کو ملحوظ رکھتے ہوئے بعض مفروضے قائم کیے گئے ہیں جن میں ایک یہ ہے کہ میزائل جوہری ہتھیاروں سے لیس ہونے چاہئیں”۔ دونوں ممالک کے درمیان جب 4جون 1975ء کو دوبارہ ملاقات ہوئی تھی توانہوں نے اس منصوبے کا ”شالیٹ” کوڈ نام رکھ دیا تھا۔اس اجلاس کی تفصیل سے ظاہر ہوتا ہے کہ جنوبی افریقہ ”درست پے لوڈ” دستیاب ہونے کی صورت جوہری اسلحے کی خریداری کے لیے آرڈر دینے کو تیار تھا۔ تاہم بعد میں یہ منصوبہ ختم کردیا گیا تھا۔اس دستاویز اور منصوبے کی بعد میں جنوبی افریقہ کے سابق نیول کمانڈر ڈائیٹر جرہارڈٹ نے بھی تصدیق کی تھی۔انہیں 1983ء میں اسرائیل کے لیے جاسوسی کے الزام میں قید کردیا گیا تھا۔ مورڈیشائی وانونو نے 1986ء میں سنڈے ٹائمز میں اسرائیل میں جوہری ہتھیاروں کی تیاری کے عمل کے بارے ایک باتصویر رپورٹ شائع کی تھی لیکن جرہارڈٹ کی طرح انہوں نے بھی اپنی معلومات کے ثبوت میں کوئی دستاویز پیش نہیں کی تھی۔