مقبوضہ فلسطین کے 1948ء کے دوران اسرائیل نے زیر تسلط علاقوں کی اسلامی اوقاف کی 90 فیصد وقف شدہ زمین تجارتی اور دیگر مقاصد کے لیے قبضے میں لے لی ہے۔
مقبوضہ فلسطین میں قائم شریعہ اپلیٹ کورٹ کے چیئرمین احمد ناطور نے بدھ کے روز ایک عربی اخبار کوانٹرویو میں کہا کہ قابض صہیونی حکومت نے “لاپتہ افراد کی املاک کے قانون ” کے تحت سن 1950ء کے دوران فلسطین سے نکالے گئے شہریوں کی املاک ، جنہیں اسلامی اوقاف میں شامل کیا گیا تھا کو قبضے میں لے کر انہیں تجارتی اور دیگر مقاصد کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔
ناطور نے کہا کہ قابض اسرائیل نے گذشتہ چھ دہائیوں کے دوران مقبوضہ فلسطین کی وقف شدہ اراضی کو قبضے میں لے کر اس میں تجارتی مراکز، دفاتر اور دیگر عمارات تعمیر کی ہیں جبکہ بچ جانے والی 10 فیصد زمین کو بھی یہودی قبرستانوں اور دیگر مقاصد کے لیے قبضے میں لینے کی سازشیں عروج پر ہیں۔
انہوں نے کہا کہ قابض صہیونی حکومت کی کوشش ہے کہ مقبوضہ فلسطین کی تمام اراضی یا حکومت کے قبضے میں چلی جائے یا اسے فلسطین میں آباد کیے گئے یہودیوں میں بانٹ دیا جائے۔ اسی مقصد کی ترویج کے لیے قابض صہیونی حکومت اور یہودی آباد کاروں کی طرف سے فلسطینی اراضی بالخصوص قبرستانوں کو مسمار کرنے کے بعد اسے اپنے تصرف میں لانے کی کوششیں جاری ہیں۔
وقف شدہ اراضی پر اسرائیلی قبضے کا انکشاف ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے کہ جبکہ فلسطینی امور آثار قدیمہ کے ماہر اور اقصیٰ یونیورسٹی میں جغرافیے کے استاد ڈاکٹرعبدالقادر ابراھیم حماد نے کہا ہے کہ “اسرائیل مقبوضہ بیت المقدس کے تاریخی قبرستان” مامن اللہ” میں “مرکز برائے عظمت انسانی اور برداشت میوزیم” کے نام سے ایک کھدائیوں کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔
فلسطینی محقق نے اپنے ایک بیان میں خبردار کیا ہے کہ مقبوضہ بیت المقدس میں مامن اللہ قبرستان میں کھدائیاں نہایت خطرناک ہیں، کیونکہ ان سے بالعموم اسلامی بالخصوص فلسطینی مقدسات کو شدید خطرات لاحق ہو گئے ہیں، کیونکہ مامن اللہ قبرستان صرف فلسطینیوں کا نہیں کئی دیگر قوموں کا بھی تاریخی قبرستان ہے اور اس کا تحفظ ناگزیر ہو گیا ہے۔