غزہ میں اسلامی تحریک مزاحمت “حماس” کی آئینی حکومت کے وزیراعظم اسماعیل ھنیہ نے کہا ہے کہ اسرائیل غزہ کی پٹی پر حملے کے لیے بہانے تلاش کر رہا ہے. غزہ سے مزاحمت کاروں کے راکٹ حملوں کوکسی نئی جارحیت کے لیے جواز کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے.ان کا کہنا تھا کہ قابض صہیونی دشمن کے خلاف مسلح جدو جہد کو فلسطینی عوام کی حمایت حاصل ہے جسے دستبردار نہیں ہوں گے. عرب نشریاتی ادارے”الجزیرہ” کوایک انٹرویو میں وزیراعظم نے کہا کہ ایسے لگ رہا ہےکہ اسرائیل غزہ پر ایک بار پھر ایک بڑی جنگ مسلط کرنے کی تیاری کر چکا ہے، اس کے لیے اب صرف جواز کی راہیں تلاش کی جا رہی ہیں. ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ہم اسرائیل کو کسی بھی جارحیت پر خبردار کرتے ہیں کہ اس میں دونوں طرف ہونے والے نقصان کا ذمہ داراسرائیل ہی ہو گا. انہوں نے کہا کہ فلسطینی تحریک مزاحمت اور مجاھدین کی مادی طاقت گذشتہ جنگ سے کہیں زیادہ مضبوط ہے،حملہ ہوا تو اسرائیل کو منہ کی کھانی پڑے گی. اسماعیل ھنیہ نے کہا کہ” ہم جنگ نہیں چاہتے لیکن صہیونی دشمن نے جنگ مسلط کی تو اس کا پوری قوت سے جواب دیا جائے گا”. ایک دوسرے سوال پر فلسطینی وزیراعظم نے کہا کہ اسرائیل سمیت بعض قوتیں حماس کو سیاسی پروگرام سے الگ کرنا چاہتی ہیں حماس نہ تو اپنی مزاحمتی پالیسی سے دستکش ہو گی اور نہ ہی سیاسی پروگرام کو ترک کرے گی. فلسطینی سیاسی جماعتوں کے درمیان مفاہمت کے سلسلے میں پوچھے گئے سوال کے جواب میں اسماعیل ھنیہ نے کہا کہ مفاہمت کی راہ میں مغربی کنارے میں فتح کا حکمران دھڑا رکاوٹ ہے. حکومت سے باہر فتح کی قیادت بھی مفاہمت کے لیے سنجیدہ ہے لیکن اصل رکاوٹ فتح کے حکمران دھڑے کی طرف سے کھڑی کی جا رہی ہے. فلسطینی ریاست کے قیام کے بارے میں سوال کے جواب میں اسماعیل ھنیہ کا کہنا تھا وہ بغیر کسی تفریط کے سنہ 1967ء کی جنگ میں مقبوضہ علاقوں پر فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کو تیار نہیں تاہم حماس اسرائیل کے وجود کو جائز قرار نہیں دے گی. حماس کے مصر کے ساتھ تعلقات سے متعلق سوال پر انہوں نے کہا کہ حماس اور مصر کے درمیان اسٹریٹیجک تعلقات قائم ہیں. حماس اور مصر کے مشترکہ دشمن یہ افواہیں پھیلاتے ہیں کہ مصر اور حماس کے درمیان کوئی مخاصمت چل رہی ہے.